تھوئیٹس…..دنیا کا سب سے خطرناک گلیشیئر

Published On 03 February,2024 12:10 pm

لاہور: (خاور نیازی) دنیا کے خطرناک ترین گلیشیئر کے ذکر سے پہلے انٹارکٹکا کا مختصر سا تعارف ضروری ہے، جہاں یہ وسیع و عریض گلیشئیر واقع ہے، انٹارکٹکا دنیا کا انتہائی جنوبی اور سرد ترین براعظم ہے، اس کی بلندی بھی سب براعظموں سے زیادہ ہے۔

14.425 ملین مربع کلومیٹر رقبے کے ساتھ یہ براعظم دنیا کا پانچواں بڑا براعظم ہے، انٹارکٹکا کا 98 فیصد رقبہ برف سے ڈھکا ہوا ہے جس کے سبب وہاں کسی قسم کی مستقل انسانی آبادی نہیں ہے، البتہ وہاں مختلف ممالک کے سائنسدان، تجرباتی اور تحقیقی مقاصد کیلئے آتے جاتے رہتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہاں تقریباً گزشتہ 20 لاکھ سال سے بارش نہیں ہوئی، اس کے باوجود دنیا کے پینے کے میٹھے پانی کے 80 فیصد ذخائر اس اکیلے براعظم میں موجود ہیں، انٹارکٹکا وہ براعظم ہے جہاں دنیا کے سب سے زیادہ طوفان آتے ہیں جبکہ مغربی انٹارکٹکا اس براعظم کا وہ حصہ ہے جہاں باقی علاقے کی نسبت زیادہ طوفان آتے ہیں۔

گلیشیئرز کے ماہرین نے انٹارکٹکا میں واقع ’’تھوئیٹس‘‘ کو دنیا کا وسیع ترین اہم ترین اور خطرناک ترین گلیشیئر قرار دیا ہے، اس کا اندازہ صرف اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 2022ء میں اس گلیشیئر کا ایک حصہ گلوبل وارمنگ کے باعث ٹوٹ کر اس سے الگ ہوگیا تھا جس کا حجم پورے برطانیہ کے رقبے کے تقریباً برابر تھا، چنانچہ یہی وہ موقع تھا جب دنیا بھر کے سائنس دانوں نے تھوئیٹس کو دنیا کا خطرناک ترین گلیشیئر قرار دیا تھا۔

تھو ئیٹس خطرناک کیوں؟
گزشتہ سال سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے’’ تھوئیٹس‘‘ نامی اس گلیشیئر کے پگھلنے کا تفصیلی جائزہ لیا تو یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ گلوبل وارمنگ کے باعث یہ گلیشئیر 23 سال پہلے کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ رفتار سے پگھل رہا ہے، جو کرہ ارض پر بسنے والوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہے،مزید براں سائنس دانوں نے یہ بھی بتایا کہ ’’تھوئیٹس گلیشیئر‘‘ سے ہر سال 80 ارب ٹن برف ٹوٹ کر سمندر کا حصہ بنتی جا رہی ہے جو کرہ ارض پر سطح سمندر میں 4 فیصد سالانہ اضافے کا سبب بھی بن رہی ہے۔

سائنس دانوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر تھو ئیٹس گلیشئیرز مکمل طور پر پگھل جاتے ہیں تو سطح سمندر مجموعی طور پر 10 سے 12 فٹ تک بلند ہو سکتی ہے، اس دیوہیکل حجم والے گلیشئیر اور اس کے پگھلنے کے باعث سطح سمندر میں خطرناک ممکنہ اضافہ کے باعث اب یہ خطرات لاحق ہوگئے ہیں کہ انارکٹکا کے دور دراز مقام پر واقع اس گلیشئیر کا وجود زمین پر خوفناک ترین مقامات کا درجہ اختیار کر گیا ہے، اس کا وجود اس لئے بھی خطرے کی علامت سمجھا جا رہا کہ یہ اس کرہ ارض پر تیزی سے موسمیاتی تبدیلی کا باعث بن رہا ہے۔

اب سے چند سال پہلے 57 سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے انٹارکٹکا کے دور دراز علاقوں تک پہنچنے کیلئے تقریباً آٹھ ہفتوں پر محیط ایک خطرناک سفر کیا تھا، ٹیم کی رکن ایلزبیتھ رش کے مطابق ’’تھوئیٹس گلیشیئرز‘‘انٹارکٹکا میں موجود واقعی ایک خطرناک اور پراسرار مقام ہے، تھوئیٹس گلیشیئرز ‘‘ تیزی سے تباہی کے دہانے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ’’تھوئیٹس ‘‘ کے گلیشیئرز تیزی سے پانی میں تبدیل ہو رہے ہیں اور اس سے سمندر کی سطح میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے، اصل تشویشناک بات یہ ہے کہ انسان اس بارے عملی قدم کب اٹھائیں گے‘‘۔

مشکلات کیا کیا ہیں
صرف یہی نہیں کہ تھوئیٹس انٹارکٹکا کا وسیع و عریض اور مشکل رسائی والا گلیشئیر ہے بلکہ اس پورے خطے میں سب سے زیادہ طوفانوں کی زد میں رہنے والا خطہ بھی یہی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا قریب ترین تحقیقی مرکز بھی یہاں سے 1600 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔

انٹارکٹکا کو سائنس دانوں نے مشرقی اور مغربی دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے، مشرقی انٹارکٹکا سطح سمندر سے اوپر اور ایک میل کے لگ بھگ گہری برف کی موٹی تہہ پر مشتمل ہے، ماہرین کے مطابق یہ برف یہاں کروڑوں سال سے جوں کی توں موجود ہے لیکن جہاں تک مغربی حصے کا تعلق ہے یہ مشرقی حصے کی نسبت تو چھوٹا ہے تاہم پھر بھی ایک وسیع حصے پر مشتمل ہے۔

جہاں تک تھوئیٹس گلیشیئرز کا تعلق ہے اس کا زیادہ حصہ سطح سمندر کے نیچے ہے، ماہرین کیلئے اصل پریشان کن صورت حال یہ ہے کہ گلیشئیر کے نیچے سمندری سطح مزید نیچے ہوتی جا رہی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تھوئیٹس گلیشیئر سطح سمندر سے ایک میل کی گہرائی پر واقع ہے جبکہ اتنا ہی یعنی ایک میل موٹی تہہ کے ساتھ سطح سمندر سے اوپر بھی ہے، جہاں تک تھوئیٹس کا تعلق ہے ایک حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اس کے سامنے والا حصہ لگ بھگ 100 میل چوڑا ہے اور یہ ہر سال موسمیاتی تبدیلی کے باعث دو میل تک سمندر میں گر جاتا ہے۔

سائنس دان تھوئیٹس کے بارے اس لئے بھی تشویش میں مبتلا ہیں کہ جوں جوں آپ نیچے اس کی تہہ کی طرف جاتے ہیں گلیشیئر کی سطح مسلسل موٹی ہوتی جاتی ہے، اس کے علاوہ جیسے جیسے سمندروں کا نیم گرم پانی گہرائی سے سفر کر کے ساحل تک بہہ کر آتا ہے اس سے گلیشیئر کے پگھلنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے، چنانچہ جوں جوں گلیشئیر پگھلتا ہے تو اور زیادہ برف پانی کے سامنے آ جاتی ہے اور اس کے بہنے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہو جاتے ہیں۔

جہاں تک ان گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کا معاملہ ہے، سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کی اس کی وجوہات میں موسم کی شدت اور بحری لہروں کے درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ ساتھ موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں، سائنسدانوں کا مزید کہنا ہے کہ تشویش ناک صورت حال گہرائی میں سفر کرنے والا سمندر کا وہ گرم پانی ہے جو دنیا کے دوسرے کونوں سے آ کر پورے براعظم کے گرد چکر لگاتارہتا ہے۔

اس دوران موسمیاتی تبدیلی کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے، جہاں تک موسمیاتی تبدیلیوں کا تعلق ہے اس بارے تو کوئی شک نہیں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی دن بدن بڑھتی مقدار ہی ماحول اور سمندروں میں درجہ حرارت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بن رہی ہے، چنانچہ اب اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ اگر ایک طرف تھوئٹیس گلیشیئرز انہی موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں تو دوسری طرف یہی گلیشیئرز دنیا بھر کے سمندروں کی سطح میں اضافے کا باعث بھی ہیں۔

اب سائنس دانوں نے برملا عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ گلوبل وارمنگ کا باعث بننے والی انسانی سرگرمیوں سے اجتناب برتیں کیونکہ ہم سب کی بقاء اسی احتیاط میں ہے۔

خاور نیازی ایک سابق بینکر، لکھاری اور سکرپٹ رائٹر ہیں، ملک کے مؤقر جرائد میں ایک عرصے سے لکھتے آ رہے ہیں۔