اسلام آباد: (رضوان قاضی) اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کیخلاف سوشل میڈیا مہم اور فیملی کا ڈیٹا لیک کرنے پر توہین عدالت کے معاملہ میں سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان پر مشتمل تین رکنی لارجر بنچ سے جاری حکمنامہ میں عدالت کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے اپنی رپورٹ کا جائزہ پیش کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق ٹویٹ کرنے اور ری ٹویٹ کرنے والے چند اکاؤنٹس کی تشخیص کی گئی ہے، رپورٹ سے صاف ظاہر ہے کہ معزز جج کیخلاف تین ہیش ٹیگز پر مبنی یہ ایک منظم مہم تھی، ایف آئی اے حکام کے مطابق چند مزید اکاؤنٹس سے متعلق معلومات آئندہ سماعت پر عدالت کے سامنے رکھی جائیں گی۔
ایف آئی اے کی جانب سے ایکس انتظامیہ کو بھی ایمرجنسی ڈسکلوژر ریکویسٹ بھیجی گئی ہیں، دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی جانب سے آئی ایس آئی کی رپورٹ جمع کرائی گئی، بڑی مایوسی کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آئی ایس آئی کی رپورٹ انتہائی ناکافی ہے، رپورٹ کے پہلے دو صفحات پر کہا گیا ہے کہ اکاؤنٹس غیر فعال ہونے کے باعث پیش رفت نہیں ہوسکتی۔
عدالت نے ففتھ جنریشن وار کے تناظر میں پوچھا کہ اگر صدر مملکت یا آرمی چیف پر توہین مذہب کے الزامات عائد کیے جائیں تو کیا آئی ایس آئی پھر بھی یہی جواب دے گی؟، عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ کیا آئی ایس آئی ففتھ جنریشن وار کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟، ہمیں ان دونوں سوالوں سے متعلق جواب نہیں مل سکا۔
پی ٹی اے، آئی بی، ڈی جی امیگریشن، سی ٹی ڈی، پیمرا اور ایف بی آر کی رپورٹس عدالت میں جمع کرا دی گئیں، آئندہ سماعت پر ان تمام اداروں کے رپورٹ تیار کرنے والے ایکسپرٹس مختصر پریزنٹیشن دیں، نیشنل سائبر سکیورٹی پالیسی کے تحت قائم سی ای آر ٹی کے سربراہ آئندہ سماعت پر پیش ہوں۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل، امیگریشن حکام نے واضح کیا کہ گرین کارڈ محض ایک سفری دستاویز ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل، امیگریشن حکام کے مطابق گرین کارڈ کا مطلب شہریت نہیں، اس وضاحت کے بعد حکومت نے جسٹس بابر ستار کیخلاف ٹویٹس میں الزامات کے جھوٹا ہونے کا اعتراف کر لیا ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ ایف آئی اے ایکس کو بھیجی گئی ایمرجنسی ڈسکلوژر ریکویسٹس عدالت میں جمع کرائے، ایف آئی اے مہم میں آغازی ٹویٹ کرنے اور سب سے زیادہ ری ٹویٹ کرنے والے اکاؤنٹس کی انکوائری کرے۔
حکمنامے میں کہا گیا کہ تمام ادارے انکوائری کرتے وقت شائستہ رویہ اپنائیں، یاد رکھیں عدالت نے ابھی مجرم کا تعین نہیں کیا، انکوائری کے دوران ایسا رویہ اپنانے سے گریز کیا جائے جو شہریوں کو خوفزدہ کرے، سیکرٹری دفاع یقینی بنائیں کہ آئی ایس آئی کی جانب سے مناسب رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے۔
عدالت نے کہا کہ ایف آئی اے معزز جج کے دستاویزات سسٹم سے لیک ہونے سے متعلق فارنزک تحقیقات عمل میں لائے، ایف آئی اے مہم کے پہلے ٹویٹ کے تین ماہ قبل سے ڈیٹا چیک کرنا شروع کرے، رجسٹرار آفس ایکس کے چیف لیگل کونسل کو عدالت کی معاونت کی درخواست بھیجےَ۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ رجسٹرار آفس اس کیس میں تمام رپورٹس اور دستاویزات کو ڈیجیٹلی بھی محفوظ کرے، ڈیجیٹل کاپیز کو پی ڈی ایف میں تبدیل کرکے لاک کر دیا جائے تاکہ تبدیلی نہ ہوسکے۔
ڈیجیٹل کاپیز کے جائزے کیلئے رجسٹرار آفس کمرہ عدالت میں ججز اور وکلاء کیلئے دو الگ الگ سکرینز نصب کرے، کمرہ عدالت میں بنچ کے تینوں ممبران کیلئے کمپیوٹرز فراہم کیے جائیں، کیس کی آئندہ سماعت 2 جولائی 2024 کو مقرر کی جائے۔