اسلام آباد:(دنیا نیوز)سپریم کورٹ کے سنیئر ترین جج منصور علی شاہ نے جوڈیشل کانفرنس سے قبل چیف جسٹس سے چھ سوالات کے جواب مانگ لیے۔
جسٹس جج منصور علی شاہ نے چیف جسٹس یحیی ٰ آفریدی کو اس حوالے سے خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 8 ستمبر کو جوڈیشل کانفرنس میں عوامی سطح پر 6 سوالات کے جواب دیں۔
چیف جسٹس صاحب! آپ کے بعد موسٹ سینئر جج ہونے کے ناطے ادارے کی ڈیوٹی کیلئے خط لکھ رہا ہوں، میں نے آپ کو متعدد خطوط لکھے لیکن آپ کی طرف سے نہ تحریری نہ ہی زبانی جواب ملا۔
انہوں نے متن میں لکھا کہ عوامی سطح پر آپ کا جواب ججز اور عوام کو اعتماد دے گا،آپ کا جواب یقین دلائے گا کہ آپ کی ریفارمز شفاف اور آئین کے مطابق ہیں، یہ نہ سمجھیں یہ کوئی ذاتی متاثرہ یا رنجیدہ شخص کا خط ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں لکھا کہ آپ کے دور میں سب سے زیادہ 3956مقدمات میں نے نمٹائے، میں 35 رپورٹٹد فیصلے تحریر کر چکا ہوں،میں ایک ذمہ دار کے طور پر آپ کو خط لکھ رہا ہوں،یکطرفہ طور پر بینچز کی تشکیل اور کاز لسٹیں جاری ہورہی ہیں۔
انہوں نے متن میں لکھا کہ ججز روسٹر بغیر مشاورت کے دستخط کیلئے بھیجے جاتے ہیں، سینئر ججز کو دو رکنی جب کہ جونئیر ججز کو تین رکنی بینچز کیوں دیے جا رہے ہیں؟ قومی اہمیت کے مقدمات سینئر ججز کے سامنے کیوں مقرر نہیں کئے جا رہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ سینئر ججز کی کارکردگی کے بجائے کنٹرول کرنے کیلئے سائیڈ لائن کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے سوال کیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا؟ سپریم کورٹ رولزکی منظوری فل کورٹ کے بجائے سرکولیشن کے ذریعے کیوں کی گئی؟اختلافی نوٹ جاری کرنے سے متعلق پالیسی میں تبدیلی کیلئے انفرادی طورپرمشاورت کیوں کی گئی؟
جسٹس منصورعلی شاہ نے خط میں لکھا کہ ججزکی چھٹیوں پر جنرل آرڈر کیوں جاری کیا گیا؟ 26 ویں ترمیم کیخلاف درخواستوں پر اوریجنل فل کورٹ کیوں تشکیل نہیں دیا گیا؟ان اقدامات کی وجہ سے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات57 ہزار پر کھڑے ہیں، نتیجتاً ججز کی تعداد میں اضافہ مقدمات کی تعداد کی بجائے اندرونی توازن کیلئے کیا گیا۔
انہوں نے سوال کیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم پر دائر درخواست ایک سال سے زیر التوا ہیں،26ویں ترمیم مقدمات کو نئے آنے والے ججز کے علاوہ فل کورٹ کو سننے چاہئیں، فیصلے تک چیف جسٹس آفس کی قانونی حیثیت پر سوال ہے، ترمیم کے بعد چیف جسٹس آفس کی آئینی حیثیت بھی مشکوک ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید لکھا کہ مجھے آپ پر اعتبار ہے، نئے عدالتی سال پر جواب دیے کر نئی شروعات کریں گے، قوم اور ججز چیف جسٹس کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ واضح جواب ملے، قوم اور ججز ان سوالات پر چیف جسٹس کی خاموشی نہیں چاہتے۔