کراچی: (دنیا نیوز) گیارہ ستمبر 2012 کراچی کی تاریخ کا ہولناک دن ہے۔
المناک سانحہ بلدیہ فیکٹری کو گزرے 13 سال بیت گئے، سانحہ بلدیہ میں 260 افراد زندہ جل گئے اور سیکڑوں زخمی و معذور ہوئے تھے، ہولناک آتشزدگی میں شہید ہونے والے اپنی یادیں چھوڑ گئے تو بچنے والے افراد آج بھی غمزدہ ہیں، مرنے والوں کے لواحقین اور زندہ بچ جانے والوں کا دکھ اور آزمائشیں آج بھی برقرار ہیں۔
آج سے 13 سال قبل آج ہی کی تاریخ میں حیوانیت کا ایسا اندوہناک کھیل کھیلا گیا جسے دیکھ کرانسانیت بھی دہل کرگئی، گیارہ سمتبر دوہزار بارہ کی صبح کراچی بلدیہ میں واقع گارمنٹس فیکٹری کے محنت کش یہ نہیں جانتے تھے کہ آج وہ خود نہیں بلکہ اُن کا لاشہ گھر واپس جائے گا، جلنے کی ناقابل برداشت بُو پر کوئی انہیں پہچان بھی نہ پائے گا، بندہ خاکی راکھ کا ڈھیر بن جائے گا۔
درندہ صفت بھتہ مافیا نے آنکھوں میں حسین مستقبل کے خواب سجائے فیکٹری آنے والے دو سو انسٹھ انسانوں کو زندہ جلا ڈالا تھا، سانحہ کی تحقیقات میں یہ ہولناک انکشاف ہوا کہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ فیکٹری مالکان کی جانب سے بھتہ نہ دینے کے باعث آگ لگائی گئی تھی اور اس کیلئے مخصوص کیمیکلز استعمال کیا گیا جس سے آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے فیکٹری کو زندہ انسانوں سمیت راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا۔
تفتیش کا دائرہ آگے بڑھا تو ایک سیاسی جماعت سے وابستہ بڑے بڑے نام سامنے آئے، گرفتاریاں ہوئیں، جے آئی ٹی بنی لیکن لخت جگر کی جدائی پر آنسو بہاتی ماں کو انصاف ملا اور نہ ہی بڑھاپے کا سہارا چھن جانے پر باپ کا ہاتھ قاتلوں کے گریبان تک پہنچا۔
بیواؤں اور یتیموں کی چیخیں آج بھی فلک کو چیرتی ہیں اور ادھر کیس کی فائلوں پر پڑنے والی گرد کی تہہ مزید موٹی ہوتی جارہی ہے، کیا ہمارا سسٹم مظلوموں کو انصاف دے پائے گا؟