اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا جسٹس طارق جہانگیری کو جوڈیشل ورک سے روکنے کا حکم معطل کر دیا۔
جسٹس طارق جہانگیری کو ڈگری کے معاملے پر عدالتی کام کرنے سے روک دیا گیا تھا جس کے خلاف انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر آئینی بنچ نےریلیف دے دیا۔
سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام کرنے کی اجازت دے دی، عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل آفس کو نوٹس کردیا، عدالت نے ہائیکورٹ میں درخواست گزار کو بھی نوٹس جاری کردیا۔
یہ خبر بھی پڑھیں، جامعہ کراچی نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ایل ایل بی کی ڈگری منسوخ کردی
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہمارے پاس تو کیس صرف اسلام آباد ہائیکورٹ کے عبوری حکم کی حد تک ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 18 اکتوبر کو بلا لیا گیا ہے۔
جسٹس شاہد بلال نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس جہانگیری کے خلاف درخواست پر اعتراضات موجود تھے، رجسٹرار آفس کے اعترضات کے باوجود رٹ پٹشن پر نمبر کیسے لگ گیا، اس سوال پر دونوں طرف کے فریقین کے وکلا تیاری کر کے آئیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ ایک جج کو جوڈیشل ورک سے نہیں روکا جا سکتا۔
جسٹس طارق جہانگیری کے وکیل نے کہا کہ حال ہی میں جسٹس جمال خان کا فیصلہ ہے کہ کوئی جج دوسرے جج کے خلاف رٹ جاری نہیں کر سکتا، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اس کیس کے حقائق مختلف تھے جس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں۔
ممبر اسلام آباد بار کونسل علیم عباسی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ہم نے بھی اس کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کر رکھی ہے، جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ کیا آپ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پارٹی تھے؟ مرکزی درخواست گزار جسٹس طارق جہانگیری ہیں۔
وکلاء نے کہا کہ اسلام آباد بار کونسل، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی کیس میں فریق بننے کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سپریم کورٹ دفتر کا اپنا طریقہ کار ہے جب درخواستوں پر نمبر لگیں گے ہمارے سامنے فیکس ہو جائیں گی۔
جسٹس طارق جہانگیری کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ ملکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے اپنے ہی ہائیکورٹ کے جج کو عدالتی کام سے روکا ہو، جسٹس جہانگیری کو کام سے روکنے کے حکم نامے میں طے شدہ قانون کو نظر انداز کیا گیا۔
منیر اے ملک نے مزید کہا کہ جج کو کام سے روکنے کے حکم نامے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا، 10 جولائی 2024 کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس جہانگیری کے خلاف رٹ دائر ہوئی، ایک سال سے زائد وقت ہو چکا ہے رجسٹرار آفس کے اعترضات ابھی تک برقرار ہیں۔
وکیل درخواست گزار نے یہ بھی کہا کہ جسٹس طارق جہانگیری کے خلاف رٹ دائر ہونے کے بعد کچھ واقعات بھی پیش آئے جو عدالت کے سامنے رکھوں گا، اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر ہو کر آئے، پانچ ججوں نے ٹرانسفر کے خلاف 184/3 کے تحت درخواست دائر کی، ججز ٹرانسفر کو درست قرار دیا گیا جس کے خلاف اپیل تاحال زیر التوا ہے۔
منیر اے ملک نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جس جج کی ٹرانسفر کے خلاف ججز نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اسی چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ نے 16 سمتبر کو جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکا، جس درخواست پر طارق جہانگیری کو کام سے روکا گیا اس پر ابھی تک اعتراضات بھی باقی ہیں اور دوسرے فریق کو سنا بھی نہیں گیا۔
سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔