پشاور: (دنیا نیوز) ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں کو جگہ دی گئی، خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے جس کا خمیازہ خیبرپختونخوا کے عوام بھگت رہے ہیں۔
پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ آج کی پریس کانفرنس کا مقصد خیبرپختونخوا میں سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لینا ہے، خیبرپختونخوا کے غیور عوام دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں، انشاء اللہ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکیں گے،افواج پاکستان کی جانب سے تجدید عزم کرنے آیا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں جان بوجھ کر دہشت گردوں اورسہولت کاروں کو جگہ دی گئی، آج یہ بیانیہ کہاں سے آگیا کہ افغان مہاجرین کو واپس نہیں بھیجنا، گورننس، مجرمانہ سیاسی پشت پناہی کا خمیازہ خیبرپختونخوا کے عوام بھگت رہے ہیں۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ دہشت گردی ختم نہ ہونے کی پانچ بنیادی وجوہات ہیں، نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ کرنا، دہشت گردی کے معاملے پر سیاست کرنا اور قوم کو اس سیاست میں الجھانا، بھارت کا افغانستان کو دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرنا، افغانستان میں دہشت گردوں کو جدید ہتھیاروں اور پناہ گاہوں کی دستیابی، مقامی اور سیاسی پشت پناہی کا حامل دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کا گٹھ جوڑ دہشت گردی کی بنیادی وجوہات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صرف 2024 اور 2025 میں پاکستان جہنم واصل کیے جانے والے افغانیوں کی تعداد 161 بنتی ہے، اس کے علاوہ افغانستان کی سرحد سے دخل اندازی کرتے ہوئے 135 خارجی مارے گئے جبکہ 2 سال میں خود کش حملے کرنے والے 30 حملہ آور میں افغان شہری تھے، یہ اعداد و شمار افغانستان کو بھارت کے دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر عیاں کرتے ہیں۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ 2014 میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد سیاسی و ملٹری لیڈر شپ نے ایک مشترکہ نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا، دہشت گردی میں اضافے کی وجوہات نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل درآمد نہ ہونا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سوال ہوتا ہے دہشت گردی کے زیادہ واقعات خیبرپختونخوا میں ہی کیوں ہوتے ہیں، پنجاب اورسندھ میں گورننس قائم ہے، ان صوبوں میں پولیس اورقانون نافذ کرنے والے ادارے کام کررہے ہیں، خیبرپختونخوا میں ہونے والی دہشتگردی کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے۔
افغانستان میں دہشتگردوں کی پناہ گاہیں موجود، بھارتی پشت پناہی حاصل ہے
ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں اور دہشتگردوں کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے، بھارت کا افغانستان کو دہشت گردی کے بیس کے طور پر استعمال کرنا بھی دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ ہے، افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد چھوڑے گئے ہتھیاروں کا بڑا حصہ دہشتگردوں کے ہاتھ لگا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کئی دہائیوں تک افغان بھائیوں کی مہمان نواز کی، آج حکومت کہتی ہے کہ افغان بھائی واپس جائیں تو اس پر بیانیے بنائے جاتے ہیں، باتیں کی جاتی ہیں، افغان مہاجرین کے حوالے سے گمراہ کن باتیں کی جاتی ہیں۔
ترجمان پاک فوج نے واضح کہا کہ صرف ریاست، افواج، قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی پاکستانی عوام کی سکیورٹی کے ضامن ہیں، پاکستانی عوام کی سکیورٹی کسی دوسرے ملک بالخصوص افغانستان کو رہن نہیں کی جاسکتی۔
انہوں نے کہا کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہو رہی، 2014 اور 2021 میں یہ فیصلہ ہوا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پولیس کو مضبوط کیا جائے گا اور کاؤنٹرر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ کو مضبوط کیا جائے گا، ہم کے پی کی بہادر پولیس کو سلام پیش کرتے ہیں لیکن آپ نے ان کی تعداد صرف 3200 رکھی ہوئی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں گورننس کے خلا کو ہمارے سکیورٹی فورسز کے جوان اپنے خون سے پورا کر رہے ہیں، خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے لیکن کسی فرد واحد کو یہ اختیار نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنی ذات کے لیے ریاست اور پاکستانی عوام کے جان، مال اور عزت کا سودا کرے۔
سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو سپیس دی گئی
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اوران کے سہولت کاروں کو سپیس دی گئی، کیا آج ہم ایک بیانے پر کھڑے ہیں؟ پچھلی حکومت نے نیشنل ایکشن پلان سے کچھ نکات حذف کیے،نیشنل ایکشن پلان کے نکات پر سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے کیا، دھرتی کے بہادرسپوتوں نے اپنے خون سے بہادری کی تاریخ رقم کی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہے؟ ہر مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے ہوتا تو غزوات اورجنگیں نہ ہوتیں، تمام سیاسی جماعتیں پشاور میں بیٹھیں اور نیشنل ایکشن پلان بنایا، دہشتگردی کو جنگ سے اکھاڑنے کیلئے 14نکات پر اتفاق کیا گیا، کیا آج ہم ایک بیانیے پر کھڑے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ بھار ت نے پاکستان پر حملہ کیا تو عوام نے کیوں نہیں کہا کہ اگلے دن بات چیت کرلیں؟ دہشت گردی کے معاملے پر سیاست کی گئی اور قوم کو الجھایا گیا، دہشت گردی کے پیچھے گٹھ جوڑ کر مقامی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہزاروں پاکستانیوں،افواج،پولیس ،سکیورٹی اداروں کے جوانوں نےاپنے خون سے دھرتی کو سیچا ہے، 2024کے دوران کے پی میں مجموعی طور پر 14ہزار 535انٹیلی جنس بیسڈ آپریش کیے گئے، روزانہ 40انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے جارہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 2024 کے دوران آپریشنز میں 700سے زائد دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا گیا، خیبرپختونخوا میں 2024میں ان آپریشنز کے دوران 577قیمتی جانوں نے جام شہادت نوش کیا، شہدا میں پاک فوج کے 272بہادرافسر وجوان، پولیس کے 140اور165معصوم پاکستانی شامل ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ رواں سال اب تک خیبرپختونخوا میں 10ہزار 115انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے جاچکے ہیں، یہ یومیہ 40انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن بنتے ہیں، ان آپریشنز کے دوران 917دہشتگردوں کوجہنم واصل کیا جاچکا ہے، سال 2025خیبرپختونخوا میں ان آپریشنز کے دوران 516قیمتی جانوں نے جام شہادت نوش کیا، شہدا میں پاک فوج کے311بہادرافسران وجوانان،پولیس کے73اور132معصوم پاکستانی شہری شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان خیبرپختونخوا میں آئین وقانون مطابق انٹرنل سکیورٹی سرانجام دے رہی ہے، دہشت گردی کے پیچھے ٹیرر کرائم نیکسز ہے، منفی سیاست،الزام تراشی اورخارجی کرمنل مافیا کی سہولت کاری کے بجائے اپنی بنیادی ڈیوٹی پر توجہ دیں۔
خارجی دہشت گرد اور سہولت کار کسی بھی عہدے پر ہو اس کیلئے زمین تنگ کردی جائے گی
انہوں نے یہ بھی کہا کہ امید ہے آپ افغانستان سے سکیورٹی کی بھیک مانگنے کے بجائے صوبے کے ذمہ داران کے طور پر اس کی حفاظت کریں گے، افواج پاکستان یہ بات واضح کرنا چاہتی ہے کہ دہشتگردوں کے سہولت کاروں کے خلاف کھڑی ہے اورکھڑی رہے گی، خارجی دہشتگرد اورسہولت کار کسی بھی عہدے پر ہو اس کیلئے زمین تنگ کردی جائے گی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستانی قوم بنیان مرصوص کی طرح دہشتگردوں اوران کے سہولت کاروں کے خلاف کھڑی ہے اورکھڑی رہے گی، ہمارے شہدا کا خون کبھی رائیگاں نہیں جائے گا، واضح کرنا چاہتے ہیں اب اسٹیٹس کو نہیں چلے گا۔
پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ جو شخص یاگروہ کسی مجبوری یا فائدے کی وجہ سے خارجیوں کی سہولت کاری کررہا ہے اس کے پاس3آپشنز ہیں، سہولت کاری کرنے والا خوارجیوں کو ریاست کے حوالے کردے، دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں میں ریاستی اداروں کے ساتھ مل کر اس ناسور کو اپنے انجام تک پہنچائیں، اگر یہ دونوں کام نہیں کرنے تو خارجیوں کے سہولت کار ہوتے ہوئے ریاست کی طرف سے ایکشن کے لیے تیار رہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 2021کی حکومت نے کچھ نکات جن پر کام ہوچکا تھا ان کو خارج کیا، موجودہ حکومت نے اس کو ریوائزڈنیشنل ایکشن پلان کووژن استحکام کا نام دیا، نظرثانی شدہ نیشن ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہوا، احاطہ کرلیں کہ ریوائزڈایکشن پلان کے باقی تیرہ نکات پر کیا کام ہورہا ہے۔
افغانستان کوپاکستان پر حملے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اس کے ثبوت اورشواہد موجود ہیں
میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ افغانستان کوپاکستان پر حملے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اس کے ثبوت اورشواہد موجود ہیں، ایک سیاسی مافیا کے لیے ہزاروں نان کسٹم پیڈگاڑیاں اہم ہیں، ریوائزڈ ایکشن پلان کا پوائنٹ ہے کہ ایک بیانیہ بنایا جائے، سوشل میڈیا اورسیاستدان مل کر یک زبان ہوکر دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہوں گے، یہ ہم نے نہیں کہا،یہ آپ کے سیاسی عمائدین،سیاسی جماعتیں 2014سےبات پر متفق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کا کوئی دین اور ایمان نہیں ہے، مجرمانہ بیانیے کی قیمت فوج، پولیس، بچے اور کے پی کی ترقی ادا کررہی ہے، پردہ ڈالنے کیلئے مزید کنفیوژ کیا جاتا ہے، کیا خوارجی نورولی محسوداوراس کے جتھے سے بات کریں؟
ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ خوارجی نورولی محسود نے چند ماہ قبل کہا اسلام کی روح میں مشرک کے ساتھ بھی الحاق جائز ہے، نورولی محسود کا اسلام تو یہ کہتا ہے،کیا اس سے بات چیت کریں؟دہشتگرد کا کسی مذہب، نسل یا سوچ سے تعلق نہیں، دہشتگرد آج ایک تنظیم میں ہے کل کہیں اورسے زیادہ پیسے ملیں گے وہ وہاں سے لڑے گا۔
انہوں نے پوچھا کہ دہشتگردوں کا خیبرپختونخوا کی روایات سے کوئی تعلق ہے؟ پاکستان کے عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنے کیلئے جو ضروری اقدامات ہونے چاہئیں وہ کیے جائیں گے، کون کہتا ہے خوارجیوں اور دہشت گردوں سے بات کرنی چاہئے؟ کون ہے جو کہتا ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی کی گارنٹی کابل دے گا؟
آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ فیصلہ افغانستان کے سرکردہ لوگوں نے خود کرنا ہے کہ کیا آپ نےاپنے ملک کو دہشتگردوں کی آماجگاہ بننے دینا ہے؟ دہشتگرد عناصر سانپ کی طرح ہوتے ہیں، جو سانپ پالے گا وہ اس پر بھروسہ نہیں کرسکتا، دہشتگردی خود افغانستان کے عوام کیلئے بھی خطرہ ہیں۔
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ خیبرپختونخوا کے عوام کے جان،مال ،عزت وآبرو کی حفاظت کیلئے جو ممکن ہوا وہ کریں گے اورکرتے رہیں گے۔