پشاور: (دنیا نیوز) چیئرمین دنیا میڈیا گروپ میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ چھوٹے صوبے بنانے سے اخراجات بڑھنے کے بجائے کم ہوں گے، جتنا صوبہ چھوٹا ہوگا، اتنا ہی پروٹوکول کا خرچہ بھی کم ہو جائے گا، چاروں صوبوں کو الگ الگ دیکھیں تو یہ اتنے بڑے ہیں کہ دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں ملے گی۔
ایپ سپ کے زیر اہتمام رحمان میڈیکل انسٹیٹیوٹ حیات آباد پشاور میں ’’2030 کا پاکستان، چیلنجز، امکانات اور نئی راہیں‘‘ آگاہی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین دنیا میڈیا گروپ میاں عامر محمود کا کہنا تھا کہ ہمیں سکولوں میں کوئی رسول پاکؐ کا گورننس ماڈل نہیں پڑھاتا، رسول پاکؐ کی گورننس ماڈل میں ہر 10 گھروں پر ایک نقیب مقرر تھا اور پھر ان 10 کو ملا کر ہر 100 گھروں پر ایک نقیب مقرر تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بنے 80 سال ہونے والے ہیں، دنیا میں پاکستان کہاں کھڑا ہے، دنیا میں لوگ اکٹھے ہو کر ملک بناتے ہیں تاکہ پبلک ویلفیئر ہوسکے، ایسے اجزا ہیں جن کی بنیاد پر ملک بنائے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ورلڈبینک کے ایک گروپ نے پاکستان کے بارے میں سٹڈی کی، رپورٹ میں بتایا گیا پاکستان کو کن چیزوں میں بہتری لانا پڑے گی، ہم نے 79 سال میں صرف 5 بڑے شہروں کو ڈویلپ کیا، سندھ میں کراچی کے علاوہ کہیں ڈویلپمنٹ نظر نہیں آئے گی۔
پنجاب میں لاہور کے علاوہ کہیں ترقی نظر نہیں آتی
میاں عامر محمود نے کہا کہ کراچی کا حال بھی سب کو معلوم ہے، کراچی کے علاوہ سندھ میں کہیں چلے جائیں تو کچی آبادی کا منظر پیش کرے گا، پنجاب میں لاہور کے علاوہ کسی شہر میں ترقی نظر نہیں آئے گی، فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے، فیصل آباد میں نہ کوئی اچھا ہسپتال، نہ یونیورسٹی اور نہ سکول ہے، ہر کسی کو علاج کیلئے لاہور ہی جانا پڑتا ہے۔
چیئرمین دنیا میڈیا گروپ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں کوئٹہ کے علاوہ کہیں کوئی ڈھنگ کی سہولت نہیں، خیبرپختونخوا میں بھی پشاور کے علاوہ کسی شہر میں بنیادی سہولیات میسر نہیں۔
بدقسمتی سے ہم اپنے اداروں کو مضبوط نہیں بنا سکے
انہوں نے کہا کہ ہم نے 5 بڑے شہروں کے علاوہ کوئی چھٹا شہر ڈویلپ ہی نہیں کیا، ہر سال ان 5 بڑے شہروں کی آبادی میں اضافہ ہو جاتا ہے، دیگر شہروں میں ایسی بنیادی سہولیات نہیں، ہمارے ادارے کمزور ہیں، بدقسمتی سے ہم اپنے اداروں کو مضبوط نہیں بنا سکے، کمزور ادارے طاقتور کو مزید طاقتور کرتے ہیں، کمزور اداروں کی وجہ سے عام آدمی کو انصاف کے مواقع نہیں ملیں گے اور کرپشن میں اضافہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ نچلی سطح پر اختیارات منتقل ہونے چاہئیں، گورنمنٹ کے تین ستون ہیں وفاق، صوبائی اور لوکل، لوکل گورنمنٹ کے الیکشن ہو بھی جائیں تو کام کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا، حکومت کرنے کیلئے وفاق اور صوبائی گورنمنٹ موجود ہے، لوکل گورنمنٹ عوام کی حقیقی خدمت کیلئے بنتی ہے، لوکل گورنمنٹ ہمارے ہاں زیادہ تر ہوتی ہی نہیں۔
بلوچستان میں اتنے بڑے رقبے پر ہر سہولت پہنچانا ناممکن
میاں عامر محمود نے کہا کہ ہم نے اس ملک میں صرف 4 صوبے بنائے، چاروں صوبوں کو الگ الگ دیکھیں تو یہ اتنے بڑے ہیں کہ دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں ملے گی، پنجاب پاکستان کی آبادی کا 52 فیصد ہے، باقی تینوں صوبے مل کر بھی اس کے برابر نہیں بنتے، دنیا میں آپ کو کوئی ایسی فیڈریشن نہیں ملے گی۔
چیئرمین دنیا میڈیا گروپ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا رقبہ آدھے ملک کے برابر ہے، آزادی کے وقت بلوچستان کی آبادی صرف 11 لاکھ تھی، بلوچستان میں اتنے بڑے رقبے پر ہر سہولت پہنچانا ناممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ چائنہ اور بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک ہیں، چائنہ میں اس وقت 31 صوبے ہیں، بھارت ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا، آزادی کے وقت بھارت کی 9 ریاستیں تھیں، آج 39 ہیں، امریکا کی 50ریاستیں ہیں، انڈونیشیا 27 کروڑ آبادی کا ملک ہے جس کی 34 ریاستیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نائیجیریا میں 21 کروڑ کی آبادی ہے اور27 ریاستیں ہیں، جبکہ برازیل بھی 21 کروڑ آبادی کا ملک ہے اور اس کے 36 صوبے ہیں، ہم دنیا میں آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہیں، صرف ہم ایک ملک ہیں جس کے 4 صوبے ہیں۔
میاں عامر محمود نے کہا کہ پاکستان میں 1951 میں پہلی مردم شماری ہوئی، اس وقت پاکستان کی آبادی تقریباً سوا تین کروڑ تھی، آج پاکستان کی آبادی 25 کروڑ ہے، ہم نے 3 کروڑ سے شروع کیا اور 25 کروڑ پر پہنچ گئے، گورننس کا وہی پرانا ماڈل اور صرف 4 صوبے ہیں۔
چیئرمین دنیا میڈیا گروپ کا کہنا تھا کہ پنجاب 2 کروڑ سے بڑھ کر 13 کروڑ آبادی تک پہنچ چکا ہے، سندھ 60 لاکھ کی آبادی کا صوبہ تھا آج وہ 55 ملین ہیں، صرف کراچی کی آبادی 3 کروڑ ہے، خیبرپختونخوا 5.8 ملین آبادی کا صوبہ تھا،آج یہ 41 ملین ہے، پہلی مردم شماری کے وقت بلوچستان کی کل آبادی صرف 11 لاکھ تھی، آج وہاں ڈیڑھ کروڑ کی آبادی ہے، باقی دنیا کیسے چل رہی ہے اور ہم اپنے صوبوں کو کس طرح لے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
ہمارے صوبے کئی ممالک سے بھی بڑے
انہوں نے کہا کہ پنجاب کی آبادی دیکھیں تو دنیا کا 12 واں بڑا ملک ہوگا، دنیا میں صرف 31 ملک ہیں جن کی آبادی سندھ سے زیادہ ہے، دنیا میں 41 ممالک ایسے جو خیبرپختونخوا سے بڑے ہیں، ہمارے صوبے کئی ممالک سے بھی بڑے ہیں، بلوچستان کو دیکھیں تو 172 ممالک ایسے ہیں جو رقبے میں بلوچستان سے چھوٹے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری تجویز ہے کہ آپ پاکستان کے ہر ڈویژن کو صوبہ بنا دیں، چھوٹے صوبے بنانے سے اخراجات بڑھنے کی بجائے کم ہوں گے، جتنا صوبہ چھوٹا ہوگا، اتنا ہی پروٹوکول کا خرچہ بھی کم ہو جائے گا، نئی لیڈر شپ نوجوان نسل اور متوسط طبقے سے آنی چاہیے۔
مسائل سے باہر نکلنے کا راستہ ہمیں خود تلاش کرنا ہے
میاں عامر محمود نے کہا کہ ہمارے ڈھائی کروڑ بچے سکول نہیں جا رہے اور ہم اس سروے میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں، ہمارے علاوہ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جس کے ڈھائی کروڑ بچے سکول سے باہر ہوں، ہم اب ان مسائل میں پھنس چکے ہیں، مسائل سے باہر نکلنے کا راستہ ہمیں خود تلاش کرنا ہے۔
چیئرمین دنیا میڈیا گروپ کا کہنا تھا کہ بھارت نے نئے صوبے بنائے تو جی ڈی پی، ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس بڑھ گئے، گورنمنٹ کا کام صرف یہ نہیں کہ ٹیکس اکٹھا کرے، کسی کو جیل میں ڈالے یا کسی کی پٹائی کرے، حکومت آپ کی ٹریننگ، آگے بڑھنے کا راستہ بھی دکھاتی ہے، حکومت آپ کیلئے آگے بڑھنے کے مواقع بھی پیدا کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں ہر صوبے کی جی ڈی پی کیکولیٹ ہوتی ہے پھر اس پر بحث ہوتی ہے، پاکستان کے کسی صوبے کی جی ڈی پی کیلکولیٹ ہی نہیں ہوتی اور نہ ہم اس چکر میں پڑنا چاہتے ہیں۔
میاں عامر محمود نے پاکستان کے تعلیمی شعبہ میں اہم کردار ادا کیا: چودھری عبدالرحمان
قبل ازیں چیئرمین ایپ سپ چودھری عبدالرحمان نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میاں عامر محمود لاہور سے یہاں تشریف لائے، آج کا دن خیبرپختونخوا کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا، میاں عامر محمود نے پاکستان کے تعلیمی شعبہ میں اہم کردار ادا کیا، پاکستان کو 400 سے زائد کالج اور 3 بہترین یونیورسٹیاں دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج ہمیں اپنے بارے میں سوچنا ہے، پامی 11 ہزار میڈیکل گریجویٹس ہر سال پیدا کر رہی ہے، 10 ہزار پرائیویٹ بیڈز پر علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کی جا رہی ہے، پامی 40 ہزار بیڈزپر ٹیچنگ ہسپتالوں میں کم قیمت پر عوام کا مفت علاج کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ سیکٹر نہ ہوتا تو ملک میں تباہی مچ جاتی، آج پرائیویٹ سیکٹر ہے تو ملک ہے، آج ہمیں گورننس ماڈل بدلنا ہوگا۔
چودھری عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ ایپ سپ نے یہ اقدام اٹھایا جس پر اس کا شکر گزار ہوں، رحمان میڈیکل انسٹیٹیوٹ کو خیبرپختونخوا کی تاریخ میں اسی طرح یاد رکھا جائے جس طرح علی گڑھ یونیورسٹی کو یاد رکھا گیا۔



