تفصیلات کے مطابق گزشتہ سال کی نسبت 2018ء میں خسرہ کی وبا شدت سے پھیلنے کے خطرات منڈلانے لگے ہیں اور رواں ماہ لاہور میں چھوٹے بڑے ہسپتالوں، چلڈرن آﺅٹ ڈور اور پیڈز وارڈ میں مریض رپورٹ ہو رہے ہیں۔ ایک سینئر ماہرِ امراض بچگان کے مطابق اس وقت چلڈرن ہسپتال لاہور، مول چند ہسپتال، سر گنگا رام ہسپتال، میو ہسپتال، چلڈرن وارڈ سمیت لاہور کے گردونواح میں واقع میاں منشی اور شاہدرہ ہسپتال میں بھی آﺅٹ ڈور اور ایمرجنسی میں آنے والے خسرہ کے بچوں کی تعداد 5 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
چلڈرن ہسپتال لاہور میں خسرہ کے مریضوں کی تعداد 5 فیصد سے زائد ہے اور بیشتر بچے مرض میں شدت کے باعث ایمرجنسی میں بھی آ رہے ہیں۔ ماہرِ امراض بچگان کے مطابق ایک سال سے 10 سال تک کے بچے بھی خسرہ سے متاثر ہو رہے ہیں جبکہ انٹرنیشنل پروٹوکول کے مطابق 9 ماہ اور 15 ماہ کے دوران ویکسین دی جاتی ہے۔
خسرہ کا مرض پھیلنے کی بڑی وجہ ویکسی نیشن سے کوتاہی بتائی جاتی ہے اور اگر کسی نے ویکسی نیشن کرائی ہے اور پھر بھی خسرہ کے مرض میں مبتلا ہو گیا ہے تو ثابت ہو چکا ہے کہ ویکسی نیشن سے قبل اس کی کولڈ سٹوریج کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خسرہ ایک بچے سے دوسرے کو لاحق ہو رہا ہے، والدین اور بچے احتیاط کریں۔ اس ساری صورتحال کے پیشِ نظر محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اور پرائمری ہیلتھ کیئر اپنے اپنے ہسپتالوں سے رپورٹ لینے اور اس پر اقدامات کرنے کے بجائے خاموش نظر آ رہے ہیں جبکہ طبی ماہرین کے مطابق یہ مرض جلد وبا کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔
توسیع پروگرام برائے حفاظتی ٹیکہ جات پنجاب کے ڈائریکٹر ڈاکٹر منیر احمد کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال 4 ہزار کیس رپورٹ ہوئے تھے جس میں سے ایک ہزار کنفرم جبکہ 3 ہزار مشتبہ تھے۔ رواں سال سندھ میں 13 ہزار کیس رپورٹ ہو چکے ہیں اور 100 کے قریب بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ پنجاب کا موازنہ اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے ہمارا امیونائزیشن سسٹم بہتر ہے، امید ہے رواں سال بھی مریضوں کی تعداد نہیں بڑھے گی۔