جب آپ کی ناک کے اندر والے حصے میں گدگدی ہوتی ہے تو آپ کے دماغ کے ایک خاص حصے میں ایک پیغام جاتا ہے۔ اس حصے کو سنیز سنٹر کہا جاتا ہے۔ یہ سنیز سنٹر پھر ایک پیغام ان تمام پٹھوں کو بھیجتا ہے جن کو ایک حیران کن پیچیدہ عمل کو پیدا کرنا ہوتا ہے، جسے ہم چھینک کہتے ہیں۔ پٹھے بھی اس عمل میں شامل ہوتے ہیں۔ ان میں ایک بڑا پٹھا جو آپ کے پھیپھڑوں کے نیچے ہوتا ہے اور جس کی وجہ سے آپ سانس لے سکتے ہیں شامل ہے۔
اس کے علاوہ وہ پٹھے جو آپ کی آواز کے تار کو قابو میں رکھتے ہیں اور آپ کے حلق کے پیچھے کے پٹھے، نیز آنکھوں کے پیوٹے کے پٹھے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ ہر بار چھینکتے ہوئے آنکھ بند کیوں کرتے ہیں؟ یہ سنیز سنٹر کا کام ہے کہ وہ ان تمام پٹھوں کو ایک ساتھ اور درست ترتیب کے ساتھ کام کروائے تا کہ وہ آپ کی ناک میں سے تنگ کرنے والے عوامل کو نکال باہر کرے۔ چھینک سے آپ کی ناک میں موجود ننھے ذرات سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے باہر کی جانب آتے ہیں۔
محققین نے مطالعہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس کے نتیجے میں آخر کیا ہوتا ہے جب ایک انسان چھینکتا ہے۔ انہوں نے تیز رفتار امیجنگ استعمال کی تا کہ ان قطروں کے بادلوں کی تصویر لے سکیں جو چھینکنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ بادل بیماریاں پھیلاتے ہیں۔ ان کے اثر کے دائرے پر تحقیق جاری ہے۔
ایم آئی ٹی امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں محققین یہ جاننے کی بھی امید رکھتے ہیں کہ بیماریاں کیسے پھیلتی ہیں۔ کوئی بھی چیز جو کہ آپ کی ناک کو تنگ کرے آپ کو چھینکنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ عام طور پر گرد وغبار، ٹھنڈی ہوا اور مرچیں اس کی وجہ بنتے ہیں۔ جب آپ کو زکام ہوتا ہے تو ایک طرح کا وائرس اپنا عارضی طور پر گھر بنا لیتا ہے اور جو کہ بہت زیادہ سوجن اور ہیجان پیدا کرتا ہے۔
کچھ لوگوں کو الرجی ہوتی ہے اور وہ چھینکتے ہیں جب ان کے سامنے ایسی چیزیں آتی ہیں جن سے انہیں الرجی ہو۔ ان میں جانوروں کے فر اور پھول کی خوشبو وغیرہ شامل ہو سکتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ سورج کی روشنی میں آ کر کون چھینکتا ہے؟ جی ہاں بہت سے لوگوں کو اس وقت چھینکیں آئی ہیں جب وہ تیز روشنی کا سامنا کرتے ہیں۔ اسے فوٹک سنیز کہا جاتا ہے۔ عموماً یہ خاصیت آپ کو آپ کے والدین کی طرف سے ملتی ہے کیونکہ یہ وراثتی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ آپ کے خاندان میں دوڑنے والا مرض ہے۔ یوں کچھ لوگوں میں روشنی کے لیے حساسیت ہوتی ہے۔