سیوریج اور کیمیکلز کی آمیزش، پنجاب کے 11 اضلاع کا زیرِ زمین پانی آلودہ

Last Updated On 16 March,2018 09:43 pm

پینے اور گھریلو استعمال کے لیے زیرِ زمین پانی انجکشن ویل اور سیپٹک ٹینکس کے باعث آلودہ ہونے لگا۔ لاہور سمیت پنجاب کے 11 اضلاع میں 95 فیصد پانی آلودہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے جبکہ صوبہ کے دیگر شہروں میں 37 فیصد پانی آلودہ ہے۔

لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، قصور، ساہیوال، ننکانہ، شیخوپورہ، ملتان، اوکاڑہ اور لودھراں میں پینے والے پانی میں سیوریج اور کیمیکلز کی آمیزش کے شواہد ملے ہیں۔ ان شہروں میں سیوریج اور فیکٹریوں کے پانی کو گندے نالوں میں بہانے کے بجائے وہاں مٹی کے بڑے بڑے بنائی گئے حوض جو عمومی طور پر 50 سے 60 فٹ گہرے ہوتے ہیں میں ڈال دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے زیرِ زمین پانی انسانی زندگی کے لیے زہر بن چکا ہے۔ کئی شہروں میں گہرے بور پر بھی پینے کے لیے حاصل کیا جانے والا پانی مضر صحت ہے۔ اس کی اصل وجہ مقامی سطح پر بنائے جانے والے انجکشن ویل اور سیپٹک ٹینکس ہیں۔ اسی طرح صوبائی دارالحکومت میں صورتحال مزید ابتر ہے۔

ٹھوکر نیاز بیگ، چوہنگ، موہلنوال، شاہ پور کانجراں اور راوی کے ملحقہ علاقے بند روڈ سمیت گھریلو، کمرشل اور انڈسٹریل سطح پر یہ انجکشن ویل بنائے گئے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 250 کے قریب چھوٹی بڑی فیکٹریاں لاہور میں انجکشن ویل کے ذریعے ویسٹ واٹر کو تلف کر رہی ہیں جبکہ لاہور کی بعض ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور دیگر علاقوں میں جہاں ڈرینج سسٹم تاحال نہیں وہاں بھی زیادہ تر انجکشن ویل کے ذریعے ہی ویسٹ کیا جا رہا ہے۔

صوبائی دارالحکومت میں حکومت کی تمام تر توجہ انفراسٹرکچر کی طرف ہے۔ آلودگی کے خاتمے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں ہو سکے۔ روزانہ لاکھوں لٹر آلودہ پانی انجکشن ویل کے ذریعے زیرِ زمین صاف پانی کو آلودہ کرنے لگا ہے۔ واسا، پنجاب فوڈ اتھارٹی اور محکمہ ماحولیات سمیت دیگر اداروں کی جانب سے زیر زمین پانی کو آلودہ ہونے سے بچانے کے لیے کوئی موثر اور عملی اقدامات نہیں کئے جا سکے۔

ماہرین ارضیات کا کہنا ہے ایک لٹر زہریلا پانی زیر زمین سینکڑوں لٹر صاف پانی کو مضر صحت کر دیتا ہے اور انجکشن ویل اور سیپٹک ٹینک کے ذریعے زیر زمین جانے والے آلودہ پانی میں پولیو کے وائرس سمیت دیگر انتہائی مضر صحت کیمیکلز پائے جاتے ہیں اور 80 فیصد سے زائد بیماریاں پانی ہی کی وجہ سے پھیل رہی ہیں اور ایک لٹر پانی بھی ٹریٹ نہیں ہو رہا۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری ایکشن لیتے ہوئے انجکشن ویل اور سیپٹک ٹینکس پر دفعہ 144 نافذ کرے اور جن لوگوں نے یہ بنائے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔

ترجمان محکمہ ماحولیات کا کہنا ہے کہ اس کے بارے میں ہم تحقیقات کر رہے ہیں کہ کون سی سوسائٹیاں ہیں جوزیر زمین ٹینکس بنا کر ان میں فضلہ ڈال رہی ہیں، ایسے عناصر کے خلاف بہت جلد کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔