تاج محل خدا کی ملکیت

Last Updated On 19 April,2018 10:03 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) اترپردیش کے سنی وقف بورڈ نے عدالت میں جوابی حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا ہے کہ تاج محل اللہ کی ملکیت ہے اور ان کے پاس اس کے وقف کیے جانے کی دستاویزات نہیں ہیں، تاہم یہ وقف شدہ عمارت ہے اس لیے اسے بورڈ کے حوالے کرنا چاہیے۔

سنی وقف بورڈ کے چیئرمین ظفر احمد فاروقی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقدمہ بہت پرانا ہے اور اب اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے ایک ہفتے قبل اترپردیش سنی وقف بورڈ کو یہ بات ثابت کرنے کے لیے دستاویزات طلب کی تھیں کہ تاج محل کو ان کی تحویل میں ہونا چاہیے ۔ظفر احمد فاروقی کا کہنا ہے کہ ملک میں قبروں اور مساجد کو قانونی طور پر وقف کی املاک تصور کیا جاتا ہے اور اس طرح تاج محل بھی اسی زمرے میں آتا ہے انھوں نے بتایا کہ بہت پہلے عرفان بیدار نام کے ایک شخص نے عدالت سے رجوع کیا تھا اور یہ معاملہ 90 کی دہائی میں عدالت میں آیا تھا پھر انڈیا کے محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں سنہ 2011 میں اپیل کی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ  تاج محل مقبرہ ہے اور وہاں شاہجہاں کا سالانہ عرس ہوتا ہے، وہاں جمعے کی نماز ہوتی ہے اور رمضان میں تراویح کی نماز ہوتی ہے ایسے میں وقف بورڈ کا اس پر حق ہونا چاہیے جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا اس کا انتظام محکمہ آثار قدیمہ سے لے کر وقف کے حوالے کر دینا چاہیے تو انھوں نے کہا کہ اس کا انتظام تو محکمے کے پاس ہی رہنا چاہیے کیونکہ وہ اچھی طرح سے اس کام کو انجام دے رہے ہیں اور یہ کہ وقف کے پاس ایسے وسائل نہیں کہ آثار قدیمہ کی اچھی طرح دیکھ ریکھ کر سکے لیکن اس کا استحقاق یا تشخص بورڈ کے پاس ہونا چاہیے۔

انھوں نے بتایا کہ ریاست میں وقف کی اپنی ملکیت صرف دو ہیں، ایک جس میں ان کا دفتر ہے اور دوسرا پرانا دفتر اور یہ دونوں ریاستی دارالحکومت لکھنؤ میں ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ  وقف کی کوئی املاک نہیں ہوتی بلکہ وقف کی ہوئی ساری جائیداد اللہ کی ہوتی ہے اور وقف بورڈ صرف اس کا انتظام دیکھتا ہے۔ اس سے قبل سنہ 2014 میں اترپردیش کے ریاستی وزیر اعظم خان نے مطالبہ کیا تھا کہ 365 سال پرانی اس یادگار کو سنٹرل سنی وقف بورڈ کے حوالے کر دینا چاہیے ۔