خواب کو حقیقت کا روپ دیجیے

Last Updated On 19 April,2018 09:08 am

لاہور: (روزنامہ دنیا) میں اور آپ بلکہ ہم سب جب چھوٹے بچے تھے توہمارے کچھ خواب اور کچھ ارمان تھے۔ ہم ایک خیالی دنیا میں رہتے تھے۔ لیکن پھر سب کچھ جیسے وقت نے بدل کر رکھ دیا تھا۔ ہم ایک الگ دنیا میں آ گئے۔ یہ دنیا تھی مسائل کی، آزمائشوں کی، نت نئی تکالیف کی۔ یہ خواب آہستہ آہستہ معدوم ہو گئے۔

مجھے یقین ہے کہ آپ اپنے خواب نہیں بھولے۔ ذرا ذہن پر زور دیں، یہ ذہن کے کسی کونے کھدرے سے نمودار ہو جائیں گے۔ ابتدا میں آپ کو یہ سب کے سب مضحکہ خیز اور بے معنی نظر آئیں گے۔ کوئی بعید نہیں کہ آپ اپنے آپ پر ہنسنے لگیں مگر یقین جانیے آپ کے یہ خواب اب بھی پورے ہو سکتے ہیں۔ ایک بچے کی طرح سے دوبارہ خیالی دنیا میں چلے جائیں۔ سوچیں کہ آپ ان دنوں کیا چاہتے تھے۔ اپنے تخیل کو آج آپ نے پرواز سے نہیں روکنا۔ کارل سینڈ برگ کے اس مقولے پر غور کریں ’’سب کچھ ایک خواب سے شروع ہوتا ہے‘‘۔ یہ ترقی جو آج آپ کو نظر آ رہی ہے کیا ہمارے آباؤ اجداد کا خواب نہیں تھی! جی ہاں وہ فضا میں، خلا میں پرواز کرنا چاہتے تھے۔ وہ قدرت کے سربستہ راز جاننا چاہتے تھے۔ آج یہ خواب حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔

تخیل کی اہمیت کو آج آپ نے سمجھنا ہے۔ یہ ایک زبردست قوت ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ کو بھی میری طرح الف لیلہ کے قصے بہت پسند ہوں گے۔ مجھے اب بھی الہ دین کا چراغ پڑھنے کا بہت مزا آتا ہے۔ تین دفعہ چراغ کو رگڑنے سے ایک طاقت ور جن حاضر ہوتا ہے۔ یہ الہ دین سے اس کی تین خواہشات پوچھتا ہے اور انہیں فوراً پورا کر دیتا ہے۔ جی ہاں صرف تین خواہشیں ایک وقت میں جبکہ آپ کے اندر ایسا جن یعنی ایسی طاقت چھپی بیٹھی ہے جو آپ کی ہر خواہش پوری کر سکتی ہے اور ہر وقت کر سکتی ہے۔ بس اسے بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس خداداد صلاحیتیں ہیں، بے شمار وسائل ہیں۔ صرف ضرورت ہے ان سے کام لینے کی۔ ایک بار آپ نے اسے بیدار کر لیا تو ایسے معجزات آپ کی ذات کے ذریعے سے رونما ہوں گے جو کبھی آپ کے خواب و خیال میں بھی نہ ہوں۔ آپ ایسے کام کر لیں گے جو آج کل آپ صرف ناولوں میں پڑھتے ہیں۔

تو جناب اس سلسلے میں پہلا قدم اٹھائیں اور اپنے خوابوں اور ارمانوں کو دوبارہ سے زندہ کریں۔ مجھے اکثر دوست احباب کہتے ہیں: ’’تم میں قدرت نے خاص طاقت رکھی ہوئی ہے، تم جو کچھ بھی ہو اس طاقت کی بدولت ہو۔ کاش یہ ہم میں بھی ہوتی۔‘‘ یا یہ فقرہ اکثر و بیشتر سنتا ہوں ’’صرف تم ہی یہ کر سکتے ہو، میں تو اب مسائل کے ہاتھوں ہار چکا ہوں۔‘‘

یہ فقرے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ میرے دوست اپنے آپ کو اب تک پہچاننے میں ناکام رہے ہیں۔ وہ اپنے اندر موجود طاقت سے بالکل بے خبر ہیں۔ اپنے خواب و تخیل کی ان کے ہاں کوئی اہمیت نہیں اور کئی ایک تو اب خواب میں بھی اپنے آپ کو بیکار اور حالات کے رحم و کرم پر دیکھتے ہیں۔ میرے دوست اپنی لاعلمی میں اپنے لیے محدود مقاصد متعین کر بیٹھے ہیں۔ وہ چھوٹے چھوٹے مسائل میں گھِر کر اپنے آپ کو ضائع کر رہے ہیں۔ وہ زندگی گزار رہے ہیں لیکن اسے سنوار نہیں رہے۔ حالات کے رحم و کرم پر چلنا ایسے ہی ہے جیسے کہ کسی جانورکو رسی سے باندھ کر کھینچا جائے۔ پہلے تو وہ مزاحمت کرتا ہے، پھر چپ چاپ چل پڑتا ہے۔

اب یہ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ رسی تڑائی جائے یا اسی طرح سے چلا جائے۔ ایسا شخص جس کے ذہن میں بلند خیال نہیں ہوتے اس کی مثال ایسے باغ کی ہے جہاں اگر آپ پھول لگانا چھوڑ دیں تو گھاس پھونس اگ آتی ہے، بیکار خودرو پودے کیاریوں کو خراب کر دیتے ہیں اور تھوڑے سے عرصے میں باغ خراب ہو جاتا ہے۔ عظیم الشان مقاصد آپ کو لامحدود وسائل کی حامل دنیا میں لے جاتے ہیں۔ جب بھی ہم کوئی اونچا خواب دیکھتے ہیں یا کسی بڑے مقصد کو حاصل کرنے کا ارادہ کرتے ہیں، ہمیں یہ ناممکن نظر آتا ہے۔

یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ نے ایسے مقاصد کا تعین کرنا ہے جو آپ کے اندر تحریک پیدا کریں اور آپ آگے بڑھ سکیں۔ اگرآپ میں تحریک پیدا ہو گئی تو مشکل سے مشکل کام آپ کے لیے کرنا آسان ہو گا۔ اپنے مقاصد متعین کرنا پہلا مرحلہ ہے جس سے آپ خیال کو حقیقت میں بدلتے ہیں اور یہی زندگی میں تمام کامیابیوں کی اساس ہے۔

ریڈیو، ٹی وی، ہوائی جہاز، راکٹ اور کمپیوٹر یہ سب کسی خیال سے شروع ہوئے تھے۔ آج سے سو سال پہلے کوئی شخص انٹرنیٹ، موبائل فون کی بات کرتا تو اسے یقینا پاگل کہا جاتا مگر آج یہ ٹھوس حقیقت کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔ سب سے پہلے اپنی ایک منزل متعین کریں اور اس کے حصول کے لیے ایک منصوبہ ترتیب دیں اور پھر پوری تندہی سے اس کو پورا کرنے میں لگ جائیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آپ میں کام کرنے کی صلاحیت تو ہوتی ہے مگر زندگی میں کامیاب نہیں ہو پاتے، اس کی وجہ ہے کہ آپ نے کوئی واضح مقصد متعین نہیں کیا اور یہ بھی یاد رکھیں کہ زندگی کا مقصد یا منزل متعین کرنا بھی ایک فن ہے۔ اس کے لیے وقت درکار ہے، اس کے لیے تمام پہلوؤ ں کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ منزل کی جانب یہ بات تو طے ہے کہ صرف اسی صورت میں آپ بڑھتے ہیں جب آپ کو کوئی بات متحرک کرتی ہے۔

کچھ لوگ ناکامی سے زیادہ متحرک ہوجاتے ہیں، کچھ راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ لوگ کسی سے متاثر ہو کر منزل کی جانب بڑھتے جاتے ہیں۔ یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کا کوئی مقصد ہو، مشن ہو اور آپ اس کی جانب بڑھیں۔ آج ہی یہ فیصلہ کرلیں کہ آپ نے کچھ کر کے دکھانا ہے یا دوسروں کی کامیابی پر صرف تالیاں پیٹ کر زندگی گزارنی ہے۔

تحریر: انتھونی رابنز