ویانا: (ویب ڈیسک) پلاسٹک زمین کی فضا کو آلودہ کرنے کے بعد انسانی جسم کے اندر داخل ہو رہا ہے، اس کے انتہائی باریک ذرات انسانی خون میں بھی شامل ہو کر آنتوں سمیت اعضا کی خطرناک بیماریوں کا باعث بن سکتے ہیں.
ایک عرصے سے ماہرین کا گمان تھا کہ سمندری حیات پلاسٹک سے شدید آلودہ ہورہی ہے بلکہ وہ موت کی شکار ہورہی ہے۔ ماہرین کے مطابق سمندری غذا کھانے والے کے جسموں میں پلاسٹک کے ذرات موجود ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ 93 فیصد بوتلوں کے پانی میں پلاسٹک کے خردبینی ذرات پائے جاتے ہیں۔ اب دنیا بھر میں انسانی فضلے کے سروے کے بعد انکشاف ہوا ہے کہ انسان بھی پلاسٹک کی آلودگی سے متاثر ہورہے ہیں۔ اس ضمن میں میڈیکل یونیورسٹی آف ویانا نے آسٹریا کے محکمہ ماحولیات کے تعاون سے ایک سروے کیا ہے جس میں فِن لینڈ، اٹلی، جاپان، پولینڈ، ہالینڈ، برطانیہ ، روس اور آسٹریا کے لوگوں کا مطالعہ کیا گیا تھا۔
اس ضمن میں لوگوں کے ایک گروہ کو ایک ہفتے تک سمندری مچھلی کھلائی گئی، پلاسٹک میں لپیٹے گئے کھانے کھلائے گئے اور پلاسٹک کی بوتل سے پانی پیا۔ اس کے بعد ان کے فضلے کے نمونے دیکھے گئے۔ سب کے فضلوں میں نو مختلف طرح کے پلاسٹک کے آثار پائے گئے جن میں پولی پروپائلین (پی پی) اور پولی ایتھائلین ٹیریفتھلیٹ (پی ای ٹی) پلاسٹک سب سے عام اور مقدار میں زیادہ تھے۔
ماہرین نے بتایا کہ فضلے کے ہر نمونے میں پلاسٹک کے ذرات دیکھے گئے جن کی جسامت 50 سے 500 مائیکرومیٹر تک تھی اور فی دس گرام فضلے میں 20 ذرات دیکھے گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری اطراف کا پلاسٹک پیٹ میں جا رہا ہے۔ بعض ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پلاسٹک کے انتہائی باریک ذرات انسانی خون میں بھی شامل ہوسکتے ہیں لیکن اس ضمن میں باقاعدہ تحقیق لازمی ہے۔ ماہرین نے اس کے نتائج سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات معدے اور آنتوں کے امراض کی وجہ بن سکتے ہیں اور جگر، لمفی نالیوں اور خون تک میں پہنچ سکتے ہیں۔