لاہور: (روزنامہ دنیا) چھ علوم ایسے ہیں جن کے بارے میں عام لوگوں کے ذہن میں عجیب و غریب غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ہپناٹزم بھی ایک ایسا ہی علم ہے جس کا خیال آتے ہی ذہن میں ایک ایسے آدمی کا خاکہ ابھرتا ہے جو اپنے بڑے بڑے پُراثر ہاتھوں کو آپ کے چہرے کے گرد گھما گھما کر آپ کو اپنے قابو میں کر رہا ہے۔ ادھر آپ اس کے زیراثر آئے اور ادھر اس نے آپ سے یا آپ کے ذریعے کچھ غلط یا جرم کرایا۔
ہپناٹرم کی یہ تصویر تھیٹر، فلموں یا تماشوں کی دین ہے جس کے نتیجے میں اس کارآمد علم کے بارے میں عوام میں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں اور وہ اس سے پوری طرح مستفید نہیں ہو پاتے۔ ہپناٹزم کا تعلق ذہن سے ہے، اوریہ ذہنی امراض میں راحت دلا سکتا ہے۔ ہپناٹزم یونانی لفظ ’’ہپناسس‘‘ سے بنا ہے، جس کا مطلب ہے نیند یا خمار۔ انیسویں صدی میں ڈاکٹر جیمز بریڈ نے اس لفظ کو موجودہ معنی میں رائج کیا تھا۔ دورجدید میں ہپناٹزم کی شروعات آسٹریا کے ڈاکٹر فرانز انٹون میسمر نے انیسویں صدی کے اوائل میں کی۔ میسمر ایک ماہر روحانیات تھا۔ اس کے مطابق ہر شخص میں ایک مقناطیسیت ہوتی ہے، جو آدمی جتنا اعلیٰ کردار، پاک صاف اور عالم ہوتا ہے اتنی ہی زیادہ قوت اس میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ اسی مقناطیسی قوت کو وہ اپنے جسم کے مختلف حصوں سے خارج کر کے اپنے معمول کو متاثر کر سکتا ہے۔ ہاتھ اور آنکھیں اس کام میں خاص طور پر معاون ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر میسمر کا یہ فلسفہ اور طریقہ کار اس وقت اتنا مقبول ہوا کہ اسے باقاعدہ ایک علم تسلیم کر کے اس کا نام میسمریزم رکھ دیا گیا جو آج بھی کہیں کہیں استعمال ہوتا ہے۔ چونکہ اس کی بنیاد سائنس و حقائق پر کم اور مفروضوں پر زیادہ تھی اس لیے یہ ٹھوس بنیاد نہ پا سکا اور روحانی حلقوں تک ہی محدود رہا۔
بعدازاں ڈاکٹر جیمز بریڈ نے اس عمل کو سائنسی پیرائے میں پیش کیا۔ انیسویں صدی میں جن دیگر حضرات نے اس علم کو فروغ دیا ان میں سگمنڈ فرائڈ قابل ذکر ہے۔ ہپناسس ’’نیند‘‘ کی ایک ایسی قسم ہے جو کہ مختلف طریقوں سے طاری کی جا سکتی ہے۔ شدت کے اعتبار سے یہ نیند اور بیداری کے درمیان واقع ہوتی ہے، یعنی ہپناٹزم کے زیراثر معمول (subject) کو نہ تو آپ بیدار کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی وہ پوری طرح نیند میں ہوتا ہے۔ ہمارے جسم کے ظاہری اور باطنی افعال دماغ کے ذریعے کنٹرول کیے جاتے ہیں۔بہت سے ماہرین کے مطابق لاشعور ذہن کا وہ حصہ ہے جس کا تعلق یادداشت سے ہے۔ ہم جو دیکھتے سنتے ہیں وہ ہمارے لاشعور میں جمع ہوتا رہتا ہے۔ شعور ہمہ وقت بیدار رہتا ہے۔ لاشعور کو بیدار کرنے کے لیے کچھ محنت کرنا پڑتی ہے۔
اسی طرح جیسے کسی پرانی بھولی بسری بات کو یاد کرنے کے لیے آپ کو ذہن پر زور ڈالنا پڑتا ہے۔ اس دوران لاشعور کو ٹٹولا جاتا ہے۔ نیند کے دوران شعور پُرسکون یا کافی حد تک بے عمل ہو جاتا ہے جبکہ لاشعور اس دوران اکثر بیدار ہو جاتا ہے۔ عموماً لاشعور کی بیدار ی ہمیں خواب دکھاتی ہے۔ جو باتیں ہمارے ذہن کے نہاں خانوں میں یا لاشعور میں محفوظ تھیں وہ شعور کے دبتے ہی ابھر آتی ہیں۔
شعور کے آرام کا نام ہی نیند ہے۔ ہپناٹزم میں مختلف طریقوں سے معمول کے شعور کو خاموش کر کے اس کے لاشعور کو بیدار کیا جاتا ہے۔ ہپناٹزم کی بنیاد ایما یا ترغیب (suggestion)پر ہے۔ یہاں ایک بات قابل وضاحت ہے۔ عموماً لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہپناٹزم کے کسی عامل کے پاس جائیں تو بس وہ ان کو قابو میں کر لے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک معمول کی رضا شامل نہ ہو، اس کو ہپناٹائز کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ کیونکہ جب تک معمول کا شعور بیدار رہے گا وہ نیند والی کیفیت میں نہیں جائے گا۔ ہپناٹزم کا استعمال مختلف بیماریوں کا علاج کرنے کے لیے کیا گیا،اور آج بھی محدود پیمانے پر یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس کو ہپنوتھراپی کہتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا نفسیاتی علاج ہوتا ہے۔ اس عمل کے لیے معمول کو عامل پر مکمل اعتماد اور یقین ہونا چاہیے۔ اسے پوری طرح ذہنی طور پر عامل کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے۔
معمول کو آرام دہ جگہ پر آرام دہ حالت میں رکھ کر عامل اس کے شعور کو غافل کرتا ہے۔ اس کام کے لیے ترغیب کا استعمال ہوتا ہے۔ معمول کو بار بار عامل یقین کے ساتھ کہتاہے کہ تمہیں نیند آ رہی ہے، تم سونے والے ہو، تمہاری آنکھیں بھاری ہو رہی ہیں، تم سو رہے ہو۔ اسی طرح کے اور بھی طریقے ہیں، جن کے نتیجے میں معمول پُرسکون ہو جاتا ہے اور نیند کی کیفیت میں چلا جاتا ہے۔ اس کیفیت کو ٹرانز کہتے ہیں۔ ایسے میں معمول کے شعور کا بڑا حصہ غفلت میں چلا جاتا ہے۔ اس حالت میں جب اس کو کسی بات کی ترغیب دی جاتی ہے تو اس کا ذہن بلا کسی تردید یا مخالفت کے اسے مان لیتا ہے۔ اس طرح یہ بات اس کے ذہن میں گھر کر جاتی ہے اور بیداری کے بعد بھی وہ اس پر عمل کرتا ہے۔