لاہور: (دنیا میگزین) سائنس دان وہ ماحول بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس ماحول میں بلیک ہولز نامی دھماکے سے دنیا وجود میں آئی۔
گزشتہ کئی صدیوں سے تشکیل کائنات اپنے اندر ہزار ہا پر اسراریت سموئے ہوئے ہیں۔ سائنسدان تشکیل کائنات میں اپنے مادی تجربات میں الجھے ہوئے ہیں۔
موجودہ صدی کے سٹیفن ہاکنگز جیسے قد آور سائنسدان بھی بلیک ہولز کے نقطے پر آ کر رک جاتے ہیں۔ کائنات کی ساری سائنس اور انسانی فکر اور فلسفہ بلیک ہولز کے گرد ہی گھوم رہا ہے۔
گزشتہ کئی عشروں سے سائنسدان اپنی تجربہ گاہ میں بلیک ہولز پر نت نئے تجربات میں الجھے ہوئے ہیں۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ دنیا جس قسم کے ماحول میں قائم ہوئی، اس ماحول کو تجربہ گاہ میں عارضی طور پر پیدا کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
خصوصی طور پر برطانیہ میں یونیورسٹی آف نوٹنگم کی ایک ٹیم غیر ملکی اشتراک سے اپنی دانست میں وہ ایسے ماحول کی تشکیل میں کامیاب ہو گئے ہیں جس ماحول میں بلیک ہولز نامی دھماکے سے دنیا وجود میں آئی۔ سائنسدان اس تجربہ گاہ کو” بلیک ہولز لیبارٹری“ کا نام دیتے ہیں۔
بلیک ہولز کی طرح یہ تجربہ گاہ بھی اپنے اندر بے تحاشا پر اسراریت سموئے ہوئے ہے۔ اردگرد وی وی آئی پی جیسی سیکیورٹی ہے تاکہ کوئی کاغذ یا شے تجربہ گاہ سے باہر نہ نکلنے پائے۔ اس کی مکمل احتیاط کی جا رہی ہے۔
دوسری طرف سائنسی جریدوں کے رپورٹرز بھی تجربہ گاہ کے اوپر دیواروں سے کان لگائے دل کی دھڑکنوں کو سننے میں مصروف ہیں۔ بلیک ہولز لیبارٹری کی دوسری منزل پر سائنسدانوں نے ایک نالی میں مخصوص انداز میں پانی کی گردش کا انتظام کیا اور اس پانی میں انہوں نے لہروں کے مختلف پیٹرنز پیدا کیے۔
ان پیٹرنز کی مدد سے انہوں نے اسی تجربہ گاہ میں جنم لینے والے نئے ہولز یعنی بلیک ہول کے (Dulcet Tones) کی افزائش کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
جب چھوٹے سیاہ ہولز بڑے سیاہ ہول سے ٹکرائے یا (مدغم ہوئے) تو ایک شور سا برپا ہوا۔ شور کے ساتھ ہی خلا پیدا ہوا۔ ان مراحل کو سائنسدانوں نے کویزی نارمل موڈز قرار دیا ہے۔ یہ انسانی بلیک ہولز کی ابتدائی علامات ہیں۔ اس کی اینگولر موومنٹ سے ماس بھی پیدا ہوا۔
ماہرین طبیعات کے لیے یہ ایک انوکھی اور نئی تحقیق تھی۔ مصنوعی طریقے سے گریویٹشنل ویوز کی تیاری میں اسے ایک میں ایک اہم قدم قرار دیا گیا ہے۔
اس تجربے سے سائنسدانو ں کو یہ بھی پتہ چلا کہ اس کاسمک تصادم کے نتیجہ میں خلا میں کس طرح ہلچل پیدا ہوئی ہو گی؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس” کویزی نارمل موڈز“ میں توانائی کس طرح جذب ہوئی ہوگی؟ اور وقت کے ساتھ ساتھ لہروں کے پیٹرنز کس طرح بدلے اور کیونکر قائم رہے؟
سائنسدانوں نے دیکھا کہ ان لہروں پر ایک ہی چیز نے نہایت زیادہ اثرات مرتب کیے۔ آسان سے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ بلیک ہولز کی آسی لیشنز کا پس منظر پرسکون جبکہ لہروں میں ہلچل تھی۔
سائنسدانوں کے مطابق اس میں پانی میٹافر کی حیثیت نہیں رکھتا۔ تاہم یہ بلیک ہولز کا یہ بنیادی تقاضا ہے۔ نالی سے پرے سطح پر لہریں زیادہ تیزی کے ساتھ سفر کرتی ہیں۔ بلکہ ان کی رفتار کرنٹ سے بھی تیز ہوتی ہے اور یہ اپنی رفتار کی بدولت ہی کسی بھی سمت میں پھیل سکتی ہیں۔
مگر چونکہ پانی کا بہاﺅ بلیک ہول کی جانب ہوتا ہے تو اس سمت میں ان کی رفتار تیز تر ہو جاتی ہے اور اس سے لہروں کے پیٹرن میں طوفانی کیفیت رونما ہوتی ہے۔
یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ سیال کی ویلاسٹی لہروں کی ولاسٹی سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اسی لیے لہریں پانی کی جانب نیچے کو سفر کرتی ہیں۔ خواہ ان کی سمت مخالف ہی کیوں نہ ہو۔
اس بات کا اظہار معروف سائنسدان موریشیو رچرڈ نے بھی کیا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق انہوں نے عین بلیک ہول کے سائز اور زاویو ں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تجربہ کیا ہے۔
تجربہ گاہ میں پتہ چلا کہ کچھ آسی لیشنز بہت جلد منتشر ہو گئیں جبکہ کچھ بہت آہستہ سے منتشر ہوئیں اور دیر تک نالی میں موجود رہیں مگر یہ ایفی لیشن کوالی میں ہرگز نہ تھیں۔
سائنسدانوں نے اسے کوائزی باﺅنڈ سٹیٹ قرار دیا ہے۔ محققین نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ لمبے عرصے تک قائم رہنے والی کوائزی باﺅنڈ انرجی سیز اگر تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ اس تجربہ کی ایک انتہائی اہم کڑی ہوگا اور تب وہ کامیابی کے قریب تر ہوں گے۔
اسی لیے وہ گردش کرنے والے بلیک ہولز کے اثرات پر بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ کام آئن سٹائن کے بعد سے جاری ہے۔ تب سے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس ٹکراﺅ یا کشش ثقل سے سے ہی دنیا آگے چلی ۔اسی کو سائنسدان بلیک ہولز بھی کہتے ہیں۔
اسی قسم کامحدود سا تجربہ آج سے چار دہائی قبل کینیڈین طبیع دان ویلیم بل نے بھی کیا تھا۔ کئی عشرے بیت جانے کے باوجود کئی ممالک کی مدد سے تجربہ گاہوں میں تحقیق کے باوجود سائنسدان تاحال کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔