لاہور: (دنیا میگزین) دنیا میں زلزلوں نے تباہی مچائی مگر سائنسدان کچھ طاقتور زلزلوں کو زمین پر تحقیق کرنے کے لیے استعمال میں لائے۔
بڑے زلزلوں کی مدد سے سائنسدانوں نے زمین کے نیچے 410 میل کی گہرائی میں تحقیق کی۔ تب انہیں پتہ چلا کہ ہمارے قدموں کے نیچے ماﺅنٹ ایورسٹ جیسے بلند وبالا پہاڑ دفن ہیں۔ ایسی چوٹیاں ہیں جن سے ہم واقف ہی نہیں ہیں۔
سب سے پہلے ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ زمین کے نیچے تحقیقات کا سیسمک ویوز (Seismic Waves) کے سوا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ زلزلوں کی ان لہوروں کی مدد سے ہی وہ یہ جان سکتے ہیں کہ زمین کی گہرائی میں کیا ہے۔
ورنہ راکٹ چاند پر تو جا سکتا ہے، مریخ کا سفر بھی کر سکتا ہے مگر زیر زمیں کیا ہو رہا ہے، یہ جاننا راکٹ کے بس میں نہیں ہے۔ اس کے لئے انہیں ایک بڑے زلزلے کی تلاش تھی ایک ایسے زلزلے کی جس نے زمین کی انتہائی گہرائی میں بھی بھونچال پیدا کیا ہو۔
اسی سے انہیں پتہ چل سکتا تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے، کس قسم کے کیمیائی عمل جاری ہیں، نیچے کا حصہ ٹھوس ہے یا نہیں۔ یہ اور ایسے کئی سوالات میں تباہ کن زلزلہ ہی ان کے کام آ سکتا تھا۔
ان کی نظر تھی بولیویا میں 1994ء میں آنے والے تباہ کن زلزلے پر، ریکٹر سکیل پر 8.2 کی طاقت والے اس زلزے نے بولیویا کی ”اینٹ سے اینٹ“ بجا دی تھی۔
سائنسدانوں نے اس زلزلے کے مرکز پر تحقیق کے لیے سپر کمپیوٹروں کا ایک سسٹم استعمال کیا۔ انہوں نے سیسمک لہروں کی مدد سے زیر زمین ساخت معلوم کی۔
اس سے خارج ہونے والی بے پناہ توانائی نے زمین کے انتہائی اندرونی حصوں کے بارے میں بھی بہت کچھ بتایا بلکہ حیران کر دیا۔ انہیں پتہ چلا کہ زیر زمیں ایک خاص حد تک جانے کے بعد پہاڑوں کی طرح سخت، پتھریلی اور ٹھوس ہے۔
یعنی پہاڑ جیسی کوئی چیز زمین کے نیچے بھی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”زیر زمیں ماﺅنٹ ایورسٹ جیسے پہاڑ موجود ہیں۔ اس پر” کوہ پیمائی“ کی ہمت کس میں ہے؟
نئی تحقیق کے مطابق زمین کا 84 فیصد حصہ کرسٹ سے کروس تک سیلیکیٹ راک پر مبنی ہے جبکہ سطح زمین سے 410 میل کی گہرائی پر نئی چوٹیاں شروع ہوتی ہیں۔
یہ مینٹل (mantle) اپر بالائی اور زیریں سطحوں پر مشتمل ہے۔ یعنی نیچے بالکل نئی زمین شروع ہوتی ہے۔ وہاں پہنچتے ہوئے مزید ٹھوس اور سخت چٹان جیسی چیز ملتی ہے۔ تاہم سائنسدان اس کا مزید تجزیہ کر رہے ہیں۔