نارتھ کیرولینا: (ویب ڈیسک) طبی ماہرین نے تجربہ گاہ میں تیار کی گئی خون کی شریانیں اور وریدیں مریضوں کے جسم میں لگانے کا کامیاب تجربہ کر لیا۔ یہ رگیں مریضوں سے حاصل شدہ خلیات اور بافتوں (ٹشوز) سے بنائی گئی تھیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق مزید تجربات کے دوران سائنسدان مریضوں کے جسمانی افعال کا مشاہدہ کریں گے، اگر اعضا نے درست کام کیا اور ان شریانوں، وریدوں کا کوئی منفی ردعمل نہ آیا تو لہو کی ان نالیوں کو دل کے مریضوں کے آپریشن میں بھی استعمال کیا جا سکے گا۔ قبل ازیں ماہرین نے انسانی شریانوں اور رگوں کے اندر پائے جانے والے خلیات کے ذریعے تجربہ گاہ میں خون کی رگیں اور شریانیں تیار کیں۔ تاہم یہ عمل اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ اس پیچیدہ صبر آزما طریقے میں کئی مشکلات درپیش تھیں۔
پہلے ماہرین نے احتیاط سے خلیات الگ کئے اور انہیں خاص ڈشوں میں ایسی مچانوں یا نامیاتی جالی پر بچھایا جس میں خلیات کو بڑھانے والے تمام ضروری لوازمات اور غذائی اجزا موجود تھے۔ اس طرح ضروری پروٹین سمیت کولاجِن کا ایک تھری ڈی نیٹ ورک وجود میں آیا، جیسے ہی یہ نیٹ ورک بنا ان میں خون کے دباؤ (پریشر) کی طرح کا نظام بن گیا، پھر انہیں خاص طور پر موڑ کر باریک پائپوں کی طرح شریان کی شکل دی گئی۔
اس محنت سے ایک شاندار کامیابی یہ ملی کہ اس سے شریانوں کی تشکیل ہوئی، تاہم نشوونما دینے والے پروٹین کو باریکی سے الگ کرلیا گیا تاکہ مریض کا اندرونی دفاعی نظام انہیں مسترد نہ کر سکے۔ ماہرین نے اس طرح 42 سینٹی میٹر تک کی ایسی رگیں اور شریانیں بنائیں جس کا اندرونی رقبہ 6 ملی میٹر تک تھا، اس کے بعد 60 ایسے مریضوں میں انہیں منتقل کیا گیا جن کے گردے فیل ہو چکے تھے اور وہ ڈائیلسِس سے گزر رہے تھے، تمام مریضوں کے بازوؤں کے اوپری حصے میں شریانوں کے پیوند لگائے گئے۔
ڈائیلسِس کے عمل میں خون کے اندر فاسد مواد مشینوں کے ذریعے صاف کیا جاتا ہے، لیکن اس عمل کو تیز کرنے کے لیے ایسی شریانوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جو زیادہ چوڑی اور پریشر برداشت کرسکیں، مطالعے میں شامل تمام افراد اس عمل کے لیے غیرموزوں تھے اور اسی بنا پر ان میں تجربہ گاہ میں تیارشدہ رگیں لگائی گئیں۔ اس دوران 13 مریضوں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ رگیں مستقل شکل اختیار کر گئیں اور ان کے زخم ازخود تیزی سے مندمل ہو گئے، یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر قدرتی شکل اختیار کر گئیں۔