لاہور: (دنیا میگزین) طبقات میں تقسیم اس معاشرے میں آج ہم ان کروڑوں پاکستانیوں کی بات کر رہے ہیں جو اس ملک کی اکثریت ہے اور ان لوگوں کی زندگیوں میں نامناسب رہائشی، سہولیات اور حالات کی وجہ سے بیماریوں نے ان کی زندگیوں میں ڈیرہ ڈال لیا ہے۔
ادویات کے اخراجات ان کو کمر سیدھی نہیں کرنے دیتے۔ بیماری کی صورت میں پورا دن سرکاری ہسپتالوں کی لمبی لائنوں میں ذلیل ہو کر گھٹیا اور سستی دوائی ان کا مقدر ہے۔
بڑے بڑے پرائیوٹ ہسپتالوں تک نہ ان کی رسائی ہے اور نہ یہ لوگ اُس کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔ کسی بیماری کی صورت میں جب سرکاری ہسپتال کے دھکوں سے علاج نہیں ہو پاتا تو یہ مجبور لوگ گھر کا زیور یا بھینس بیچ کر ان پرائیوٹ ہسپتالوں سے علاج کے قابل ہوتے ہیں۔ ورنہ ان کروڑوں لوگوں کے لیے سرکاری ہسپتال ہیں جہاں نہ ڈاکٹر کے پاس پوری طرح دیکھنے کا ٹائم ہیں نہ معیاری ادویات اور سہولیات ہیں۔
یہ بے بس لوگ 70 سالوں سے ہماری حکومتوں کی بے حسی کی تصویر ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی عدم توجہی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کیونکہ شام میں ان ڈاکٹروں نے اپنے پرائیوٹ ہسپتالوں کو بھی چلانا ہوتا ہے۔ اگر سرکاری ہسپتالوں میں توجہ دے دی تو کلینک کیسے آباد ہونگے۔
علاج کی نام پر جس طرح سے چند پرائیوٹ ہسپتالوں عوام کا خون نچوڑا جاتا ہے، وہ ناقابل بیان ہے۔ آج انہی لوگوں کے ذکر کا دن ہے جو علاج سے محروم ہیں۔
صحت ایک مکمل جسمانی ذہنی اور سماجی آسودگی کا نام ہے۔ 1950ء سے اب تک صحت کا عالمی دن باقاعدگی سے منایا جاتا ہے، اس دن منانے کا مقصد لوگوں میں صحت کا شعور اجاگر کرنا ہے۔
پاکستان اقوام متحدہ کے رکن کی حیثیت سے ڈبلیو ایچ او کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے لیکن پاکستان میں دیگر مسائل کی طرح صحت کے بے شمار مسائل ہیں۔
صحت کے مسائل کا شکار زیادہ تر پسماندہ علاقے اور پسماندہ طبقات ہیں۔ صحت کی سہولیات سے محروم غریب عورتیں اور بچے ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی صورتحال کا ایک سرسری جائزہ لیں تو احساس ہو گا کہ اس صورتحال کو بہتر بنانے کی سخت ضرورت ہے۔
ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں صحت کا بجٹ 2 فیصد سے کم ہے اور 1500 سے زیادہ افراد کے لئے صرف ایک ڈاکٹر اور وہ بھی کبھی ہڑتال پر اور کبھی چھٹی پر۔
ہمارے ہاں ہر سال تقریباً 2 کروڑ لوگ انتقال خون کراتے ہیں جس میں صرف 20 فیصد لوگ ٹیسٹ شدہ خون استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں ایڈز کے مریضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ 1998ء میں پاکستان میں 16000 میں سے ایک شخص ایڈز کا شکار تھا۔
رپورٹ کے مطابق ہر 1400 افراد میں سے ایک شخص ایڈز کا شکار ہے اور ایڈز کو پھیلانے میں نشہ اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان میں 25 سے 30 سال کی عمر کے 60,000 سے زائد نوجوان انجکشن کے ذریعے نشہ کرتے ہیں اور جو بنیادی طور پر ایڈز کا سبب بنتا ہے۔
ٹی بی بھی غریب ممالک کا اہم مسئلہ ہے اور پاکستان میں جو افراد ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہیں، ان کی اکژیت علاج کی سہولیات نہ ہونے کے باعث ہلاک ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پشاور میں 2.2 فیصد، اسلام آباد میں 5.14 فیصد، لاہور میں 4.97 فیصد، کراچی میں 6.8 فیصد اور ملتان میں 3.37 فیصد بتایا گیا ہے۔
شوگر کے مریضوں کی تعداد میں بھی دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جہاں شوگر کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 9 ملین لوگ شوگر کے مرض میں مبتلا ہیں اور اگر یہ شرح اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو 2025ء میں 14.3 ملین ہو جائے گی۔
پاکستان میں صحت کے گرتے ہوئے اعشاریوں کو وہ کیسے بہتر بناتی ہے کیونکہ ہمارے بجٹ میں جو رقم صحت کے لئے مختص کی جاتی ہے وہ انتہائی کم ہے۔
صحت کے بجٹ میں اضافہ بہت ضروری ہے۔ دوسری جانب سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال بہت اچھی نہیں ہے۔ 20 کروڑ کی آبادی کے لئے تقریباً 1167 ہسپتال، 5695 ڈسپنسریاں اور صرف پانچ ہزار تین بنیادی مراکز صحت کام کر رہے ہیں۔ 556 رورل ہیلتھ سنٹر میں تقریباً 1500 افراد کے لئے ایک ڈاکٹر ہے۔ 40 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔ ہر 38 میں سے ایک خاتون زچگی کے دوران فوت ہو رہی ہے، جن کی عمر 16 سے 30 سال ہوتی ہے۔ بچوں کی صورتحال بھی کچھ بہتر نظر نہیں آتی۔
ہر 1000 میں 93 بچے زچگی کے دوران اپنی زندگی ہار جاتے ہیں۔ پاکستان میں 30 سے 40 فیصد بیماریوں کی وجہ آلودہ پانی ہے اور نومولود اور 10 سال تک بچوں کی شرح اموات کی زیادہ وجہ آلودہ پانی ہے۔
پاکستان میں ہر سال 1000 میں سے 106 بچے دستوں کی بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح انتہائی کم ہے۔ اب ذرا غریبوں کی حالت کا جائزہ لیں تو حقائق کچھ یوں سامنے آتے ہیں۔
عالمی ادارہ خوراک کے مطابق دنیا میں 85 افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں اور پاکستان میں تین کروڑ پچاس لاکھ سے زائد افراد خوراک کی کمی یعنی دو وقت کی روٹی کے لئے ترستے ہیں جن میں 19 لاکھ افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔
گزشتہ دنوں میں صحت کے حوالے سے حکومت کی جانب سے کچھ اقدامات اٹھائے گئے ہیں تاہم اس کے اثرات سامنے نہیں آئے۔ حکومت کی جانب سے گھروں کی سطح پر خواتین کی صحت کے لئے لیڈی ہیلتھ ورکر تعینات کی ہیں۔
اسی طرح بی ایچ یو اور آر ایچ سی کی حالت بہتر بنانے کے لئے مختلف اضلاع میں پرائیویٹ مانیٹرنگ کا تجربہ کیا گیا تھا جہاں پر NRSP اور PRSP کے ذریعے سے سرکاری ہسپتالوں کی مانیٹرنگ شامل ہیں۔ اسی طرح کچھ بنیادی مراکز صحت کو 24/7 کا تجربہ بھی کیا گیا۔ ہیلتھ موبائل یونٹ کا تجربہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا۔
اسی طرح 40 ملین کی لاگت سے ایڈز کنٹرول پروگرام بھی گزکچھ اضلاع میں ملیریا کنٹرول مہم چلائی گئی ہے۔ اسی طرح بچوں کی صحت کے حوالے سے EPI پروگرام کئی سالوں سے جاری ہے۔ 1979ء میں یہ پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ اب اس میں ہیپاٹائٹس اور دیگر بیماریوں سے بچاؤ اور وٹامن کے قطروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
اسی طرح دیگر کئی منصوبے شروع ہیں جس میں زچہ بچہ کی صحت کے حوالے سے پروگرام بھی شامل ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان نے ملینیم ڈویلپمنٹ گولز 2015ء میں دنیا سے وعدہ کیا تھا کہ ہم اپنے ملک میں بچوں اور عورتوں کی صحت، ملیریا اور ٹی بی کو کنٹرول کریں گے اور اپنی آنے والی نسل کو ایک بہتر مستقبل فراہم کریں گے۔
میلینم ڈویلپمنٹ گولز کی حالیہ رپورٹس میں ہم ان اہداف کو حاصل کرنے میں کافی پیچھے نظر آئے۔ اب 2015ء سے SDGsکو 2030ء تک طے کرنے کا ہدف ہمارے سامنے ہے۔
اس کے حصول کے منصوبہ بندی ضروری ہے۔ ہماری موجودہ حکومت کو پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لئے ابھی منصوبہ بندی کرنی ہوگی تاکہ ہم 2030ء تک اپنے ملک سے ٹی بی، ملیریا اور پولیوکا خاتمہ کر سکیں اور بنیادی صحت کی سہولیات عام آدمی تک پہنچا سکیں۔
ہمارے ملک میں دیگر شعبوں کی طرح صحت کے شعبے میں بھی دوہرا معیار ہے۔ غریب عام آدمی کے لئے سہولتوں کا فقدان ہے جبکہ امیر، سرمایہ دار اور جاگیرداروں کے لئے پیسہ کی بنیاد صحت کی اعلیٰ سہولیات میسر ہیں۔
اگر ہم دنیا کے سامنے سرخرو ہونا چاہتے ہیں اور اپنی غریب محروم طبقات، کسانوں، مزدوروں، عورتوں اور بچوں کو معیاری صحت کی سہولیات فراہم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سرکاری سطح کے اداروں کی حالت کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ غریب حالت بہتر ہو سکے۔