نیو یارک: (ویب ڈیسک) آن لائن ویڈیو کی ویب سائٹ یو ٹیوب پر نئے قوانین بنانے کی آواز اٹھنے لگیں۔ یوٹیوب ان لوگوں کو بلاک کرنیکی کوشش کر رہا ہے جو ویڈیو سائٹ کو نسل پرستی، منافرت پر مبنی تقاریر، تشدد اور غلط معلومات کو بڑھانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
یو ٹیوب کے چیف پروڈکٹ آفیسر نیل موہن کا ایک انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ صارفین میں اضافہ اس طرح ہوا جیسے کسی شہر کی آبادی میں اضافہ ہوتا ہے اسلئے یوٹیوب پر برے کردار بھی آگئے ہیں۔ اسی لیے یوٹیوب کو بھی اب نئے قوانین اور ریگولیشنز کی ضرورت ہے۔
یوٹیوب اور دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر عوامی دباؤ نے کمپنیوں کو مجبور کر دیا ہے کہ پلیٹ فارمز کے منفی پہلوؤں کو کم اور کنٹرول کرنیکی کوششیں شروع کی جائیں۔ حکام کو ڈر ہے کہ ایسا نہ کیا گیا تو مختلف حکومتیں زیادہ سخت قوانین متعارف کرائیں گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حال ہی میں گوگل نے فیڈرل ٹریڈ کمیشن کے ساتھ بچوں کے ڈیٹا پرائیویسی کی خلاف ورزی پر کروڑوں ڈالرز کا تصفیہ کیا۔ یوٹیوب گوگل کی ہی ملکیت ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق یوٹیوب اور دوسرے پلیٹ فارمز کو سازشی نظریے کیلئے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے ہولو کاسٹ یا 11 ستمبر کے دہشتگرادنہ حملوں کے حوالے سے سازشی تھیوریز اور سفید نسل پرستی کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔
یو ٹیوب کے چیف پروڈکٹ کا کہنا تھا کہ ہمیں یقینی بنانا ہو گا کہ ہمارے پلیٹ فارم پر ایسی نفرت انگیز چیزیں اپ لوڈ نہ کی جائیں۔ دو ارب صارفین ہر مہینے یوٹیوب کے پلیٹ فارم پر آتے ہیں، ہمیں ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے قبول کرنا چاہیے۔ چاہتے ہیں کہ یوٹیوب بطور اوپن پلیٹ فارم قائم رہے کیونکہ اسی وجہ سے پلیٹ فارم کا جادو چلتا ہے۔ اگرچہ یہاں کچھ خیالات یا آوازیں ہوں گی جن سے آپ یا میں اتفاق نہ کرتے ہوں گے۔
خیال رہے دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کو ان دنوں کڑی نگرانی کا سامنا ہے اور کچھ سیاسی رہنما بڑی کمپنیوں کو توڑنے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں تاکہ ان کی اجارہ داری ختم ہو۔ کچھ رہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ ان کمپنوں کے لیے سخت پرائیوسی پالیسی اور مواد کی مانیٹرنگ کے قوانیں بنائے جائیں۔
موہن کا کہنا تھا کہ پرائیوسی پالیسی کے حوالے سے بنیادی اور اولین ذمہ داری کمپنیوں کی ہے۔ کمیونٹی گائیڈ لائنز جو کہ 10 سال پہلے بہت ہی سادہ اور آسان تھیں کا اطلاق اسی طرح آج نہیں ہوتا اس لیے ان کو اپڈیٹ اور تبدیل کیا جانا چاہیے۔ یہ عمل پیچیدہ ہے اور اس حوالے سے فوری حل کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ بیٹھ کر بس ایک ہفتے کے اندر نفرت انگیز تقریروں کے حوالے سے پالیسی نہیں لکھ سکتے۔ اس کے غیر متوقع نتائج نکل سکتے ہیں۔ یوٹیوب اپنی پالیسیز کو اپ ڈیٹ کرتا رہتا ہے اور دنیا بھر کے مختلف نظریے اور سیاسی جھکاؤ کے تھرڈ پارٹی ماہرین سے بھی مشورہ کرتا ہے۔