منیسوٹا: (روزنامہ دنیا) اگر آپریشن سے قبل عطیہ کرنے والے شخص کے خلیات (سیلز) کا ایک ٹیکہ مریض کو لگا دیا جائے تو بعد میں اس کا جسم پیوند شدہ عضو کو اپنا سمجھے گا لیکن مردہ شخص کے عضو کیلئے یہ طریقہ مفید نہیں، اس عمل کو پانچ مکاک بندروں پر آزمایا گیا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق لندن میں واقع گائے اینڈ سیٹ تھامس ہسپتال کے ماہر کرِس کیلاگن نے اسی طریقے کو استعمال کرتے ہوئے بندروں میں لبلبے کے خلیات کا تبادلہ کرایا اور دوسال تک بندر کے جسم نے عضو کو مسترد نہیں کیا۔ دوسری جانب یونیورسٹی آف مِنیسوٹا کے ماہرین نے ایک اور طریقہ دریافت کیا ہے۔ مرنے کے بعد خلیات کی باقیات خون میں شامل ہو جاتی ہیں پھر امنیاتی خلیات انہیں تلی کے اندر دھکیل دیتے ہیں جہاں جسم انہیں اپنا حصہ قرار دیتے ہوئے انہیں یاد رکھتا ہے لیکن ایک کیمیکل ای سی ڈی آئی سے خلیات میں ایپوٹوپسِس (مرنے کا عمل) شروع ہو جاتا ہے۔
اسی طریقے کو آزماتے ہوئے پہلے پانچ بندروں کو ٹائپ ون ذیابیطس کا مریض بنایا گیا۔ اس کے بعد ان میں لبلبے کے خلیات ایک سے دوسرے بندر کو دئیے گئے لیکن ان خلیات کو پہلے ای سی ڈی آئی سے گزارا گیا اور تین ہفتے تک اینٹی ریجیکشن دوا بھی دی جاتی رہی پھر عضو مسترد کرنے کی دوائیں بند کر دی گئیں۔ ماہرین نے نوٹ کیا کہ ایک بندر کا لبلبہ دوسال اور دوسرے بندر کا لبلبہ ایک سال تک انسولین بناتا رہا اور یوں اس طریقے کی افادیت سامنے آئی۔