لاہور: (ویب ڈیسک) روس کی خلاء باز نے خلا میں مصنوعی گوشت بنانے کا کامیاب تجربہ کر لیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق خلیات سے گوشت بنانا آنے والے وقتوں میں صرف سائنسی تجربات یا سائنس دانوں کا ہی کمال نہیں رہے گا کیونکہ روسی خلا باز نے عالمی خلائی سٹیشن میں سیلز سے گوشت بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق روسی خلا باز نے ستمبر میں انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں مختلف تجربات کیے جس میں تھری ڈی پرنٹر کا استعمال کرتے ہوئے مختلف ٹشوز سے گائے، خرگوش اور مچھلی کے گوشت کی تخلیق کی گئی۔
خلا میں ان تجربات کے لیے خلیات فراہم کرنے والے اسرائیلی فرم کے سربراہ دیدیر طوبیا کا کہنا تھا کہ نئی ٹیکنالوجی سے طویل سفر کرنا ممکن ہو پائے گا جبکہ اس سے خلا میں بھی نئی دریافتیں ممکن ہو سکیں گی۔ ہمارا مقصد تو زمین پر گوشت فروخت کرنا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس نئی تخلیق سے فارمنگ کے روایتی طریقوں میں تبدیلی کا امکان نہیں ہے تاہم بڑے پیمانے پر ہونے والی فیکٹری فارمنگ میں اس سے معاونت حاصل ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: گوشت کے بغیر گوشت جیسے ذائقہ والا ’’امپاسیبل برگر‘‘
یاد رہے کہ گائے کے گوشت کے نوزائیدہ خلیے سے برگر بنانے کا تجربہ نیدر لینڈز کی ماسٹرہیتھ یونیورسٹی میں کیا گیا تھا۔ 2013 میں ہونے والے تجربے کے بعد کئی اداروں نے اس تخلیق کا فارمولا لیا اور بعد میں اسے استعمال بھی کیا گیا۔
خلیات سے بنائے جانے والے گوشت کے نام کے حوالے سے بحث ابھی بھی جاری ہے کہ اس گوشت کو لیبارٹری کا گوشت کہا جائے یا مصنوعی گوشت کا نام دیا جائے یا خلیات سے بنایا گیا گوشت کہہ کر پکارا جائے۔
امریکی شہر سان فراسسکو میں ہونے والی کانفرنس میں خلیات سے بنائے جانے والے گوشت کے حوالے سے کیلیفورنیا کی فرم جسٹ کے سربراہ جوش ٹیٹرک کا کہنا تھا کہ اس گوشت کی دستیابی جلد ممکن ہو جائے گی۔ ممکن ہے بڑی فوڈ چینز میں دستیاب نہ ہو لیکن ہوٹلوں کی ایک بڑی تعداد میں اس کا استعمال کیا جائے گا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اندازہ یہ لگایا جا رہا ہے کہ نوزائیدہ خلیات سے تیار کیا جانے والا گوشت ایک سے دو دہائیوں میں مارکیٹ میں دستیاب ہوگا۔
کئی مبصرین کا خیال ہے کہ ایسے گوشت کی تیاری کے لیے مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہو گی جس سے ضروریات کے مطابق گوشت کی تیاری کے تجربے ہو سکیں گے۔ مچھلی اور جانوروں کے گوشت کے متبادل ذرائع کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے گُڈ فوڈ انسٹیٹیوٹ کے مطابق 2018 میں سیکٹر میں مجموعی طور پر 7 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز کے قریب سرمایہ کاری کی گئی۔
دوسری جانب خلیات سے گوشت بنانے کی کئی طبقات حمایت بھی کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس سے جانوروں کو مصنوعی ذرائع سے تیزی سے پرورش اور ان کو مارنے کا عمل بھی رک جائے گا۔
یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ ایسا گوشت بنانے کے لیے توانائی کی بڑی مقدار استعمال ہوگی جب کہ اس کے ماحولیات پر بھی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح اس گوشت کا استعمال کس قدر محفوظ ہوگا یہ بھی ایک بڑا سوال ہے جس کا جواب ابھی تلاش کیا جانا ہے۔