برلن: (ویب ڈیسک) یوں تو دنیا بھر میں خلاء پر قبضے کرنے کی تیاریاں جاری ہیں، ان میں سرفہرست چین، امریکا، روس شامل ہیں دیگر ممالک بھی ان کی پیروی کرنے کی کوششوں میں لگ گئے ہیں، جرمنی میں صنعتوں کی طرف سے خواہش کی گئی ہے کہ ملک میں اسپیس پورٹ کی تعمیر زیر غور ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق دنیا بھر کے بڑے ترقیاتی ممالک خلاء میں کمند ڈالنے کی تیاریاں کر رہے ہیں، چند روز قبل دلچسپ خبر سامنے آئی تھی، خبر کے مطابق سائنسدان تاریخ میں پہلی بارخلاء میں بچوں کی زچگی کے مشن پر کام شروع کررہے ہیں، سائنسدان آئندہ بارہ سال کے اندراندر خلاء میں بچے کی پیدائش کا عمل مکمل کرینگے۔
اب جرمن صنعتوں کی خواہش ہے کہ حکومت خلا کی تحقيق اور منسلک سيکٹر ميں انویسٹمنٹ بڑھائے۔ اس سلسلے ميں زير غور منصوبوں ميں ايک اسپيس پورٹ کی تعمير بھی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خلاء میں بچے کی پیدائش کا مشن
وزير اقتصاديات پيٹر آلٹمائر نے عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت صنعتوں کے مطالبے پر اسپيس پورٹ کی تعمير پر غور کرے گی۔ يہ پيشرفت جرمنی ميں سرگرم مختلف سيکٹرز اور صنعتوں کی جانب سے مطالبے کے بعد سامنے آئی ہے کہ ملک اسپيس ريسرچ اور ٹيکنالوجی ميں اپنی سرمايہ کاری ميں اضافہ کرے۔
پيٹر آلٹمائر نے جرمن اخبار بلڈ‘ کو ایک انٹرويو ميں کہاکہ خلا کا سفر کئی لوگوں کے ليے آج بھی دلچسپ خيال ہے اور يہ ملازمت کے ہزاروں مواقع کا سبب بھی بنتا ہے۔ ہم سيٹلائٹ ٹيکنالوجی ميں تو دنيا ميں بہت آگے ہيں۔ اسی وجہ سے ميں فيڈريشن آف جرمن انڈسٹريز (BDI) کی جانب سے سپيس پورٹ کی تعمير کی تجويز کا جائزہ لوں گا۔
خبر رساں ادارے کے مطابق جرمن صنعت نے مطالبہ کيا ہے کہ خلائی تحقيق و جدت کے موجودہ بجٹ 28 کروڑ یورو (285 ملين يورو) کو دُگنا کيا جائے اور فرانس کے سيکٹر کے بجٹ کے برابر لايا جائے جو کہ 70 کروڑ یورو (سات سو ملین يورو) کا ہے۔
بی ڈی آئی کے سربراہ ڈيٹر کيمپف کے مطابق خلائی تحقيق کے ميدان ميں عالمی سطح پر جرمنی آٹھويں پوزيشن پر ہے گو کہ دنيا ميں ملک چوتھی سب سے بڑی معیشیت کا حامل ہے۔ ملک ميں خلائی تحقيق کے ميدان پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو ايسا نہيں لگتا کہ جرمنی ايک ايسا ملک ہے جو ٹيکنالوجی کے ميدان ميں سب سے آگے ہے۔
فيڈريشن آف جرمن انڈسٹريز کے مطابق اسپيس پورٹ کے قيام سے جرمنی ہی سے سيٹلائٹس خلا ميں بھيجنے اور ديگر کمرشل پروگراموں کے شرکت کے دروازے کھل جائيں گے۔