لندن: (ویب ڈیسک) چین کی مشہور ایپلی کیشن ٹک ٹاک جو حالیہ عرصے کے دوران امریکی حکام کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے، اس ویڈیو پر مبنی ایپس پر نیا الزام لگ گیا ہے، الزام میں کہا گیا ہے کہ ٹک ٹاک کمپنی صارفین کا ذاتی ڈیٹا اکٹھا کر کے چین کو بھیجتی ہے، یہ الزام امریکی ریاست کیلیفورنیا کورٹ میں دائر مقدمے میں عائد کیا گیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق مقدمے میں چینی کمپنی پر الزام لگایا گیا کہ وہ صارفین کے مواد جیسے ڈرافٹ ویڈیوز کو بھی پاس محفوظ کرلیتی ہے جبکہ پرائیویسی پالیسیاں مبہم ہیں۔
درخواست کے مطابق مبہم پرائیویسی پالیسیوں کے نتیجے میں خدشہ ہے کہ ٹک ٹاک کو امریکا میں صارفین کو شناخت کرنے، پروفائل بنانے اور ٹریک کرنے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ کمپنی کو مبینہ سرگرمی سے اس لیے فائدہ ہوگا کیونکہ ڈیٹا کو ٹارگیٹڈ اشتہارات کے لیے فروخت کرسکے گی۔
مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ٹک ٹاک کی ہلکی پھلکی تفریح کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑسکتی ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق یہ الزامات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب امریکا میں ٹک ٹاک کے حوالے سے کافی اقدامات کیے جارہے ہیں اور حکومت پہلے ہی ایپ کے حوالے سے جائزہ لے رہی ہے کہ سکیورٹی کے لیے خطرہ تو نہیں بن سکتی۔
خبر رساں ادارے کے مطابق یہ مقدمہ کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی ایک طالبہ نے دائر کیا ہے۔ مقدمے کے مطابق ٹک ٹاک ویڈیوز میں اکثر لوگوں کے چہرے بہت قریب سے دکھائے جاتے ہیں جس سے کمپنی کو صارفین کے بائیومیٹرک ڈیٹا کو جمع کرنے کا موقع ملتا ہے۔
مقدمے میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ایک بار جب صارف ایک ویڈیو بناکر نیکسٹ کا بٹن دباتا ہے، یہ ویڈیوز اس کے علم میں لائے بغیر متعدد ڈومین میں منتقل ہوجاتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب صارفین نے ویڈیو کو پوسٹ یا سیو بھی نہیں کیا ہوتا۔
درخواست کے مطابق طالبہ نے مارچ یا اپریل 2019 میں ٹک ٹاک کو ڈاﺅن لوڈ کیا تھا مگر اپنا اکاﺅنٹ نہیں بنایا تھا مگر کئی ماہ بعد انہوں نے دریافت کیا کہ ٹک ٹاک نے ان کا ایک اکاؤنٹ بنارکھا ہے۔
انہوں نے ٹک ٹاک میں 5 یا 6 ویڈیوز تیار کیں مگر انہیں سیو یا پوسٹ نہیں کیا لیکن پھر بھی ٹک ٹاک نے ان ویڈیوز اور طالبہ کا ڈیٹا معلومات میں لائے بغیر جمع کیا اور چین میں موجود سرورز میں بھج دیا۔
مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ٹک ٹاک کی جانب سے کئی طرح کا ڈیٹا اکٹھا کیا جاتا ہے جیسے فون اور سوشل نیٹ ورک کانٹیکٹس، ای میل ایڈریسز، آئی پی ایڈریس، لوکیشن اور دیگر معلومات یہاں تک کہ صارف کی جانب سے ایپ کو بند کیے جانے پر بھی ایپلی کیشن بدستور بائیومیٹرک اور صارف ڈیٹا اکٹھا کرتی رہتی ہے۔