بیجنگ: (ویب ڈیسک) دنیا بھر میں ٹیکنالوجی میں بادشاہت قائم کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی مگن ہیں تاہم اس دوران چین اور امریکا کے درمیان ہونے والی تجارتی جنگ کے بعد امریکا نے چین کی سب سے بڑی موبائل کمپنی ہواوے پر پابندیاں لگائیں تھیں تاہم اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، ہواوے کی آمدنی میں پابندیوں کے باوجود گزشتہ برس تقریباﹰ بیس فیصد اضافہ ہوا۔ پچھلے سال ہواوے کی آمدنی 123 ارب ڈالر کے برابر رہی، جس میں منافع کی مالیت 9 ارب ڈالر تھی۔
تفصیلات کے مطابق ہواوے ٹیکنالوجیز لمیٹڈ پر امریکا کی طرف سے اپنی ٹیکنالوجی اور تکنیکی ساز و سامان کے ساتھ چینی حکومت کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ٹرمپ انتظامیہ نے اس کمپنی پر کئی طرح کی کاروباری پابندیاں بھی لگا رکھی ہیں۔
ہواوے تاہم اپنے خلاف ان الزامات کی سرے سے تردید کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس کے خلاف پابندیاں اس لیے لگائی ہیں کہ امریکی ٹیلیکوم اداروں کو بالواسطہ کاروباری تحفظ دیا جا سکے۔
ہواوے کی طرف سے اکتیس مارچ کے روز بتایا گیا کہ امریکی پابندیوں کے باوجود گزشتہ برس اس کے کاروبار میں 2018ء کے مقابلے میں 19.1 فیصد کا اضافہ ہوا۔
کمپنی کے بارے میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ہواوے چین کی ٹیکنالوجی کے شعبے میں انتہائی کامیاب رہنے والی پہلی عالمگیر کمپنی ہے، جو سام سنگ کے بعد دنیا کا سمارٹ فون تیار کرنے والا دوسرا سب سے بڑا نجی کاروباری ادارہ بھی ہے۔
ہواوے کے مطابق 2019ء میں تقریباﹰ 20 فیصد اضافے کے ساتھ کُل 858.8 ارب یوآن یا 123 ارب امریکی ڈالر کے برابر آمدنی ہوئی، جس میں خالص منافع کی مالیت 5.6 فیصد اضافے کے ساتھ 62.7 ارب یوآن یا نو ارب امریکی ڈالر کے برابر رہی۔
اس دوران ہواوے کی مصنوعات کی دنیا بھر میں فروخت میں 2018ء کے مقابلے میں 19.5 فیصد کا اضافہ بھی ریکارڈ کیا گیا۔
ہواوے کے بانی رَین ژَینگ فائی کا کہنا ہے کہ 2019ء میں ان کے ادارے نے 240 ملین سمارٹ فون فروخت کیے اور یہ تعداد اس سے ایک سال پہلے کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ تھی۔
چین کی یہ عظیم الجثہ ٹیلیکوم کمپنی انٹرنیٹ سروسز اور فائیو جی ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی دنیا کے سرکردہ ترین اداروں میں شمار ہوتی ہے۔ ادارے نے امریکی کمپنی گوگل کے مقابلے میں اپنی سروسز تیار اور پیش کرنے کا سسلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ ہواوے سروسز کے دنیا کے 170 ممالک میں موجود صارفین کی تعداد گزشتہ برس کے اختتام پر 400 ملین (40 کروڑ) سے زیادہ بنتی تھی۔
صرف چین میں ہی اس کمپنی کے کارکنوں کی تعداد ایک لاکھ 94 ہزار کے قریب ہے اور ان میں سے شیئر ہولڈرز کی صورت میں اس ادارے کے ملکیتی حقوق کے حامل چینی شہریوں کی تعداد تقریباﹰ ایک لاکھ پانچ ہزار بنتی ہے۔