لندن :(ویب ڈیسک) مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹس مردہ افراد کی شخصیتوں کی نقل تیار کر کے ان افراد کے پیاروں کو ’ناپسندیدہ ڈیجیٹل اثرات‘ کے ذریعے پریشان کرسکتے ہیں، محققین نے انتباہ جاری کردیا۔
کیمبرج یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ’اے آئی چیٹ بوٹس‘ جو ’ڈیڈ بوٹس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اسے حفاظتی پروٹوکول کی ضرورت ہے تاکہ یہ نقصان نہ پہنچا سکے۔
تحقیق کے مطابق کچھ کمپنیاں پہلے ہی ایسی خدمات پیش کر رہی ہیں جن میں ’چیٹ بوٹ‘ کی مدد سے ڈیجیٹل فوٹ پرنٹ کا استعمال کرتے ہوئے مرنے والے شخص کی زبان اور شخصیت کی خصوصیات کی نقل کی جا سکتی ہے، جیسا کہ نٹ فلیکس کے شو ’بلیک مرر‘ کی قسط ’بی رائٹ بیک‘ میں دکھایا گیا ہے۔
جرنل فلاسفی اینڈ ٹیکنالوجی میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ہوسکتا ہے کمپنیاں ’ڈیڈ بوٹس‘ کا استعمال کرتے ہوئے صارفین کے کسی مرحوم عزیز کے انداز میں مصنوعات کی تشہیر کریں یا بچوں کو پریشان کر سکتی ہیں کہ مردہ والدین اب بھی آپ کے ساتھ ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ جب زندہ افراد مرنے کے بعد عملی طور پر دوبارہ تخلیق ہونے کے لیے سائن اپ کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں کمپنیاں ان کے اہل خانہ اور دوستوں کو اپنی فراہم کردہ خدمات کے بارے میں غیر مطلوبہ اطلاعات، یاد دہانیوں اور اپ ڈیٹس کے ساتھ سپیم کرنے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر لوگ مرنے کے بعد خود کا ورچوئل ویژن بنانے کا انتخاب کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں بننے والے ’چیٹ بوٹس‘ کو کمپنیاں ان کے پیاروں کو ناپسندیدہ پیغامات بھیجنے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں، انہیں کمپنی کی پیشکشوں کے بارے میں اطلاعات، یاد دہانیاں اور اپ ڈیٹس بھیج سکتی ہیں، یہ مر جانے والے افراد کی جانب سے ڈیجیٹل تعاقب‘ کے مترادف ہے۔
تحقیق کے محققین کا مزید کہنا ہے کہ حتیٰ کہ وہ ان لوگوں کے لیے بھی روزانہ کا انٹرایکشن ’شدید جذباتی بوجھ‘ بن جاتا ہے، جنہیں ابتدائی طور پر راحت ملتی ہے، لیکن اگر ان کے مرنے والے عزیز نے ڈیجیٹل آفٹر لائف سروس کے ساتھ طویل معاہدے پر دستخط کیے ہیں تو مصنوعی ذہانت کے سمولیشن کو معطل کرنے کا اختیار بھی ان کے پاس نہیں ہوگا۔