اسلام آباد: (حریم جدون) سوشل میڈیا کمپنیوں کے خلاف روزانہ سینکڑوں شکایات موصول ہونے کا انکشاف ہوا ہے جبکہ ملک میں وی پی این کی رجسٹریشن بھی شروع کر دی گئی ہے۔
پلوشہ خان کی زیرِ صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کا اجلاس پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا، اجلاس میں چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمان نے ایل ڈی آئی لائسنس کی تجدید سے متعلق قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دی۔
چیئرمین پی ٹی اے نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پانچ ایل ڈی آئی کمپنیاں فیسز ادا کرنے کو تیار ہیں، کچھ نے عدالت میں کیس کر رکھے ہیں، ایل ڈی آئی کمپنیوں کے لائسنس جولائی، اگست میں ختم ہو رہے تھے، سابق سیکرٹری آئی ٹی نے پالیسی ڈائریکٹو ایشو کیا جو کہ ان کا استحقاق نہیں تھا، کابینہ میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا تھا جس پر سینیٹر انوشہ رحمان نے سوال کیا کہ کیا 15 ایل ڈی آئی کمپنیوں کی آپٹیکل فائبر کیبل ہے ہی نہیں؟
اس موقع پر وزارت آئی ٹی کے افسران نے سابق سیکرٹری کے فیصلے سے لاتعلقی کا اظہار کردیا جس پر چیئرمین کمیٹی نے پوچھا کہ سابق سیکرٹری محمد محمود کے پالیسی ڈائریکیٹو کی کیا قانونی حیثیت ہے؟ جس پر ممبر ٹیلی کام نے کہا کہ وزارت آئی ٹی میں اس معاملے پر زبانی بحث ہوئی، اوپر سے دباؤ تھا کہ فائل کو جلدی سے آگے بھیجا جائے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آپ چھوڑ دیں، ہمیں معلوم ہوگیا کہاں سے دباو تھا۔
سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا کہ جب 2020 میں قسطوں پر ادائیگی کی اجازت دی گئی تو اب کیوں نہیں کی؟ جس پر چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ میں نے 2020 میں ریلیف دیا نہ اس کا مجھے اس ریلیف کا پتہ ہے، سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا کہ اس مسئلے کا حل تلاش کریں، ایل ڈی آئی لائسنسوں کی تجدید نہ ہونے سے نقصانات مرتب ہوں گے، فیصلہ کرنا ہوگا کہ کون سی کمپنیوں کو لائسنس دینے ہیں اور کتنی قیمت پر دینے ہیں۔
اس ساری صورتحال پر سیکرٹری آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام نے کہا کہ ہمیں اس معاملے پر اب وفاقی حکومت سے پالیسی ڈائریکشن چاہیے، اس موقع پر ملک بھر میں ایکس (ٹوئٹر) کی بندش پر وزارت داخلہ حکام نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دی۔
سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ ایکس (ٹوئٹر) اگر گندی چیز ہے تو حکومت اسے وی پی این کے ذریعے استعمال کیوں کر رہی ہے، چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ دنیا میں لوگ وی پی این کو رجسٹر کرکے ایکس اور دیگر ایپس کو استعمال کرتے ہیں، فری وی پی این بڑے خطرناک ہیں، ان سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، پاکستان کے قوانین کی خلاف ورزی پر مواد بلاک کیا جاتا ہے۔
وزارت داخلہ حکام نے بتایا کہ ایکس کا معاملہ اسلام آباد، سندھ اور لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، چیئرمین پی ٹی اے نے بتایا کہ اس معاملے پر پی ٹی اے نے وی پی این کی رجسٹریشن شروع کی ہے، اب تک 20 ہزار سے زائد وی پی این کی رجسٹریشن کی گئی ہے، رجسٹریشن کے حوالے سے ہم ہر جگہ مہم چلا رہے ہیں۔
اجلاس میں پرائیویٹ سیکٹر سے سیکرٹری آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کی تقرری پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن حکام نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ آئی ٹی اور وزارت قانون میں باہر سے افسر لگتے رہے ہیں، 84 درخواستیں موصول ہوئیں، 77 کی سکروٹنی ہوئی ہے، وزیر اعظم نے اس کام کے لیے تقرری کا طریقہ کار تشکیل دیا تھا۔
ایڈیشنل سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی زیر صدارت ایک سکروٹنی کمیٹی بنی تھی، 15 ایسے امیدوار تھے جو بتائے گئے طریقہ کار پر پورا اترتے تھے، کمیٹی نے ان تمام 15 درخواست گزاروں کو انٹرویو کے لیے بلایا تھا۔
چیئرمین کمیٹی پلوشہ خان نے استفسار کیا کہ ایک پروفیشنل بھی کمیٹی میں شامل نہیں تھا تو سکروٹنی کیا ہوئی ہو گی؟ ایک پروفیشنل کی بغیر سکروٹنی کیسے کی جاسکتی ہے؟ آپ لوگ کہہ رہے کہ پرائیویٹ سیکٹر سے سکلز کو دیکھتے ہوئے سیکرٹری آئی ٹی کو لایا گیا جس پر سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہا کہ اگر اس طرح سے سیکرٹری لگنا شروع ہو جائیں تو پھر صحت میں ڈاکٹر، انرجی اور واٹر میں انجیئنر کو سیکرٹری لگا دیں، جن جن لوگوں کو سیلکٹ نہیں کیا گیا ان سب سے متعلق آئندہ اجلاس میں تفصیل فراہم کریں۔