نیویارک: (ویب ڈیسک) انٹرنیٹ کی دنیا کی معروف کمپنی گوگل کو امریکی محکمہ انصاف کی جانب سے ویب ایڈ ٹیکنالوجی پر غیرقانونی اجارہ داری قائم کرنے کے سلسلے میں قانونی چارہ جوئی کا سامنا ہے۔
امریکا میں گوگل کے خلاف سرچ انجن پر غیرقانونی اجارہ داری کے فیصلے کے بعد ایک اور مقدمے پر سماعتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، اس مرتبہ یہ مقدمہ انٹرنیٹ پر ایڈورٹائزنگ ٹینکالوجی سے متعلق ہے۔
گزشتہ روز امریکی ورجینیا کے شہر الیگزینڈریا میں وفاقی جج کی عدالت میں سماعت کے دوران امریکی ریاستوں کے اشتراک اور محکمہ انصاف کے وکیل کے ساتھ گوگل کے وکیل نے بھی اپنے دلائل پیش کیے۔
حکومتی ریگولیٹرز کی جانب سے گوگل پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ گوگل نے غیرقانونی طور ویب ایڈورٹائزمنٹ ٹیکنالوجی کے میدان میں اجارہ داری قائم کر رکھی ہے اور ایسے سافٹ ویئر بنائے جو ایڈورٹائزر اور پبلشر کو میچ کرواتے ہیں۔
ایسے سافٹ ویئرز پر اشتہار کی خرید اور فروخت کیلئے رقوم کی منتقلی پر گوگل کے غلبے کی وجہ سے کمپنی ہر ڈیل ہونے کی صورت میں ایک ڈالر پر 36 سینٹ بناتی ہے۔
عدالت میں گوگل پر یہ بھی الزام لگایا گیا کہ گوگل کی جانب سے ایڈورٹائزمنٹ ایکسچینج مارکیٹ کو بھی کنٹرول کیا جاتا ہے جو ایڈورٹائزر اور خریدار کو ملاتی ہے۔
امریکی محکمہ انصاف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر ایک مونوپولی کی بات ہوتی تب بھی بات ٹھیک تھی لیکن یہاں تو مونوپولیوں کی قطار لگائی گئی ہے۔
گوگل کے وکیل کا کہنا تھا کہ حکومتی کیس ماضی کے انٹرنیٹ پر مبنی ہے جب ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز کا راج تھا اور انٹرنیٹ صارفین بڑی احتیاط سے یو آر ایل فیلڈ میں کسی ویب سائٹ کی ایڈریس لکھتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج ایسا نہیں ہوتا، آج ایڈورٹائزر کا زیادہ رجحان ٹک ٹاک یا سٹریمنگ ٹی وی سروسز جیسی سوشل میڈیا کمپنیوں کی طرف ہے۔
اس سے قبل واشنگٹن ڈی سی کی عدالت میں بھی گوگل کو سرچ انجن پر غیرقانونی اجارہ داری کے مقدمے میں بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ گوگل سرچ انجنز پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے ایپل جیسی کمپنیوں کو سالانہ سینکڑوں بلین ڈالرز ادائگیاں کرتا رہا ہے تاکہ جب صارفین ان کمپنیوں سے آئی فون یا دوسرے گیجٹز خریدیں تو اس میں ان کا ڈیفالٹ سرچ انجن گوگل ہی رکھا جائے۔