ٹیکنالوجی اور نوجوان نسل: فوائد اور چیلنجز

Published On 17 February,2025 11:58 am

لاہور: (محمد علی) آج کے دور میں ٹیکنالوجی انسانی زندگی کا اٹوٹ حصہ بن چکی ہے، خاص طور پر نوجوان نسل کیلئے جو ڈیجیٹل دور میں پیدا ہوئی ہے، سمارٹ فونز، سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ روزمرہ کی عادات کا حصہ ہیں۔

لیکن یہ سوال اہم ہے کہ کیا ٹیکنالوجی نوجوانوں کیلئے ترقی کے نئے دروازے کھول رہی ہے یا پھر یہ ان کے ذہنی، سماجی اور اخلاقی وجود کیلئے خطرہ بنتی جا رہی ہے؟ اس مضمون میں ہم ٹیکنالوجی کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ نوجوان نسل کو اس دو دھاری تلوار سے کیسے نمٹنا چاہیے۔

تعلیمی انقلاب
ٹیکنالوجی نے تعلیم کے دائرے کو وسیع کر دیا ہے، آن لائن لرننگ پلیٹ فارمز جیسا کہ   Khan academy Coursera ‘‘اور YouTube کے ذریعے نوجوان دنیا بھر کے اساتذہ سے سیکھ سکتے ہیں، یہ وسائل خصوصاً ان علاقوں کے طلبہ کیلئے مفید ہیں جہاں معیاری تعلیمی اداروں تک رسائی محدود ہے۔

مزید برآں ورچوئل کلاس رومز اور ایڈاپٹیو لرننگ سافٹ ویئر طلبہ کی انفرادی ضروریات کو پورا کرتے ہیں جس سے تعلیم زیادہ مؤثر ہوگئی ہے، ڈیجیٹل دور نے فری لانسنگ، گرافک ڈیزائننگ، کوڈنگ اور ڈیٹا انیلسس جیسے شعبوں میں روزگار کے مواقع پیدا کئے ہیں۔

نوجوان آن لائن کورسز کے ذریعے نئی مہارتیں سیکھ کر گلوبل مارکیٹ میں کام کر سکتے ہیں، مثال کے طور پر پاکستان میں بہت سے نوجوان Up workاور Fiverr جیسے پلیٹ فارمز پر کام کر کے خاطر خواہ آمدن حاصل کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا نے نوجوانوں کو دنیا بھر کے لوگوں سے جڑنے کا موقع دیا ہے، یہ پلیٹ فارمز ثقافتی تبادلے، آگاہی پھیلانے اور سماجی تحریکوں (جیسے ماحولیاتی تحفظ) کو تقویت دینے کا ذریعہ بنے ہیں، نوجوان اپنے خیالات کو آزادانہ طور پر بیان کر کے معاشرتی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔

تخلیقی صلاحیتوں کی ترقی
ٹیکنالوجی نے آرٹ، میوزک، رائٹنگ اور ویڈیو ایڈیٹنگ جیسے شعبوں میں تخلیقی اظہار کو آسان بنا دیا ہے، نوجوان TikTok، Instagram یا YouTube جیسے پلیٹ فارمز پر اپنی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں جو کہ روایتی میڈیا میں ممکن نہیں تھا۔

ٹیکنالوجی کے خطرات
ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کو بہت آسان بنا دیا ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ سنگین خطرات بھی جڑے ہوئے ہیں، یہاں چند اہم ٹیکنالوجی کے خطرات کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

ذہنی صحت پر اثرات: مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال نوجوانوں میں تنہائی، اضطراب اور ڈپریشن کا سبب بن رہا ہے، ’’سماجی موازنہ کا نظریہ (Social Comparison Theory) ‘‘ بتاتا ہے کہ لوگ اپنی زندگی کا دوسروں کی ہائی لائٹڈ تصویروں سے موازنہ کر کے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

سمارٹ فونز کی لت نے نیند کے مسائل اور توجہ کی کمی جیسے مسائل کو بھی جنم دیا ہے، انٹرنیٹ پر جعلی خبریں، سازشی تھیوریاں اور پروپیگنڈا تیزی سے پھیلتا ہے، نوجوان جن میں تنقیدی سوچ کی کمی ہوتی ہے اکثر ان معلومات کو سچ سمجھ لیتے ہیں، یہ صورتحال نہ صرف ان کی ذہنی تشکیل کو متاثر کرتی ہے بلکہ معاشرے میں انتشار کا بھی باعث بنتی ہے۔

پرائیویسی اور ڈیٹا کا تحفظ: آج کل ہر شخص کی معلومات آن لائن موجود ہیں اور ہیکرز یا کمپنیوں کے ذریعے ان کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے، سوشل میڈیا، ایپس اور ویب سائٹس اکثر صارفین کا ڈیٹا اکٹھا کرتی ہیں، جو پرائیویسی کے لئے خطرہ بن سکتا ہے، سائبر بلینگ، ہیکنگ اور آن لائن ہراسانی جیسے واقعات نوجوانوں کے اعتماد کو مجروح کرتے ہیں۔

سوشل سکلز میں کمی: ٹیکنالوجی نے لوگوں کو ورچوئل طور پر جوڑ دیا ہے لیکن حقیقی زندگی میں تعلقات کمزور ہو رہے ہیں، نوجوان اکثر دوستوں اور خاندان کے ساتھ وقت گزارنے کے بجائے سکرین میں گم رہتے ہیں، اس سے تنہائی، تعلقات میں کمزوری اور جذباتی ہم آہنگی میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔

توازن کیسے ممکن ہے؟
ٹیکنالوجی کو مواقع یا خطرات میں تبدیل کرنے کا انحصار اس کے استعمال پر ہے، چند تجاویز درج ذیل ہیں۔

ڈیجیٹل تعلیم: نوجوانوں کو انٹرنیٹ پر محفوظ رہنے، معلومات کی تصدیق کرنے اور وقت کے انتظام کی تربیت دی جانی چاہیے۔

والدین اور اساتذہ کا کردار: بچوں کے آن لائن فعالیت پر نظر رکھنا اور انہیں متوازن عادات اپنانے میں مدد دینا ضروری ہے۔

پالیسی سازی: حکومتوں کو سائبر جرائم کے خلاف سخت قوانین بنانے چاہئیں اور پرائیویسی کو یقینی بنانا چاہیے۔

ذمہ دارانہ استعمال: ٹیکنالوجی خود کوئی مسئلہ نہیں، اس کا استعمال ہی اسے مفید یا مضر بناتا ہے، نوجوان نسل اگر ڈیجیٹل ذمہ داری، تعلیم اور اخلاقی اقدار کو اپنائے تو ٹیکنالوجی ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم اس کے روشن پہلوؤں سے فائدہ اٹھائیں، لیکن اس کے تاریک اثرات سے بچنے کیلئے ہوشیار رہیں۔

محمد علی تاریخی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کے مضامین مختلف جرائد اور ویب سائٹس پر شائع ہوتے ہیں۔