لندن: (ویب ڈیسک) سائنس دانوں نے عظیم الجثہ بلیک ہول سے ایک انتہائی طاقتور اور غیر معمولی چمک کا اخراج دیکھا ہے، یہ چمک اُس وقت پیدا ہوئی جب ایک بہت بڑا ستارہ بلیک ہول کے زیادہ قریب آگیا اور اس کی کششِ ثقل نے اُسے چیر کر نگل لیا۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ چمک اپنی شدت کے عروج پر سورج سے 100 کھرب گنا زیادہ روشن تھی، یہ بلیک ہول ایک کہکشاں کے مرکز میں موجود ہے جو زمین سے تقریباً 11 ارب نوری سال کے فاصلے پر ہے۔
بلیک ہول انتہائی گھنے اجسام ہوتے ہیں جن کی کششِ ثقل اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ روشنی بھی اس سے باہر نہیں نکل سکتی، خیال کیا جاتا ہے کہ تقریباً ہر کہکشاں کے مرکز میں ایک بلیک ہول موجود ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں دیکھا گیا کہ یہ بلیک ہول سورج کے مقابلے میں تقریباً 30 کروڑ گنا زیادہ بھاری ہے، یعنی ہماری کہکشاں ملکی وے کے بلیک ہول سے بھی کہیں زیادہ بڑا، جس کا وزن سورج سے تقریباً 40 لاکھ گنا زیادہ ہے۔
ماہرین کے مطابق چمک کی سب سے ممکنہ وجہ یہ ہے کہ ایک بہت بڑا ستارہ بلیک ہول کے قریب پہنچ گیا، جب اُس ستارے کا مواد بلیک ہول کے اندر کھنچنے لگا تو اُس کے نقطۂ عدمِ واپسی تک پہنچنے پر توانائی کا ایک زبردست اخراج ہوا۔
تحقیق کے مطابق یہ ستارہ کم از کم سورج سے 30 گنا بڑا تھا، اور ممکنہ طور پر 200 گنا زیادہ بھاری بھی ہو سکتا تھا، امکان ہے کہ وہ بلیک ہول کے گرد گردش کرنے والے ستاروں کے ایک گروہ کا حصہ تھا، لیکن کسی دوسرے آسمانی جسم سے تصادم کے باعث اپنے اصل مدار سے ہٹ کر بلیک ہول کے بہت قریب جا پہنچا۔
تحقیق کے مرکزی مصنف اور کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کالٹیک) کے ماہر فلکیات میتھیو گراہم کے مطابق یہ ممکن ہے کہ ستارہ کسی زیادہ بڑے جسم سے ٹکرا گیا ہو، جس نے اسے ایک لمبے بیضوی مدار میں دھکیل دیا، اور وہ اپنے قریب ترین مقام پر بلیک ہول کے انتہائی قریب پہنچ گیا، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔
جب ستارہ بلیک ہول کے قریب پہنچا تو اس پر کششِ ثقل کا اثر اتنا زیادہ ہوا کہ وہ کھنچ کر لمبا اور باریک ہوگیا، اس عمل کو ماہرین سپگیٹیفکیشن کہتے ہیں، بعد ازاں وہ مواد بلیک ہول کے گرد چکر لگاتا ہوا اندر گرنے لگا، اور اسی دوران یہ انتہائی روشن چمک پیدا ہوئی۔
یہ منظر امریکا کی ریاستوں کیلی فورنیا، ایریزونا اور ہوائی میں موجود مختلف دوربینوں سے دیکھا گیا، یہ کہکشاں زمین سے 11 ارب نوری سال دور ہے، اس لیے سائنس دان دراصل ماضی کے اُس وقت کو دیکھ رہے ہیں جب کائنات اپنی ابتدائی حالت میں تھی۔



