لاہور: (روزنامہ دنیا) غیر ملکی جریدے ’’Obscura‘‘ میں شائع شدہ مضمون ’’عزت و وقار کا ہاتھ ‘‘ (Hand of Glory) پڑھ کر حیرت ہوئی۔ توہم پرستی کی جس بیماری میں کم تعلیم یافتہ اقوام مبتلا ہیں، وہی خرابیاں یورپی باشندوں میں بھی پائی گئیں۔ وہ دیوی، دیوتائوں پر بھی یقین رکھتے تھے اور جادو ٹونے پر بھی۔ اپنی قسمت کا حال بدلنے کے لئے نوجوان سزا یافتہ مجرموں کے ہاتھ، سر اور پائوں وغیرہ بھی کاٹ کر رکھ لیا کرتے تھے۔
کٹا ہوا ہاتھ اتنا خوش قسمت کیوں؟ 27 اپریل 2018ء کو وینڈی پریٹ نے اس موضوع پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ مضمون ٹائٹل تھا ’’ہینڈ آف گلوری‘‘ یعنی خوش قسمتی کا ہاتھ۔ وہ لکھتی ہیں، ’’ایسا ہاتھ دنیا میں ایک ہی ہے جو برطانیہ میں یارک شائر کے علاقے میں قائم میوزیم میں محفوظ ہے۔ انگلیاں گل چکی ہیں،گوشت تو کب کا فنا ہو چکا۔ ہڈیاں دکھائی دے رہی ہیں، مختلف کیمیکلز اور نمک کے ذریعے اسے محفوظ کرنے سے اس کی شکل بگڑ گئی‘‘۔ ان کے مطابق ’’ہینڈ آف گلوری‘‘ کو 17 ویں صدی میں محفوظ کیا گیا۔ وبٹی نامی شخص کا یہ ہاتھ 1935ء سے برطانیہ کے اس عجائب گھر میں موجود ہے۔ اگرچہ اس کا اب تک کوئی فرانزک اور ڈی این اے نہیں ہوا لیکن مختلف تجربات اور ٹیسٹوں کے بعد پتہ چلا کہ یہ وبٹی نامی شخص کا ہی ہاتھ ہے۔
’’ہینڈ آف گلوری‘‘ کے مجرم وبٹی کو سرعام پھانسی دی گئی تھی تا کہ سب کو پتہ چلے کہ یہی چور ہے اور چور کا انجام پھانسی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ ہاتھ جوزف فورڈ نامی مزدور نے قریبی گائوں کے نیم پختہ مکان میں مرمت کے دوران دریافت کیا۔ ہاتھ کی دریافت پر کسی کو حیرانی نہ ہوئی، سبھی نے اس کے بارے میں کہانیاں پڑھ رکھی تھیں۔ ایک ڈکشنری کے مطابق اس زمانے میں کٹے ہوئے ہاتھ کو مختلف نمکیات میں ڈبو کر، جڑی بوٹیوں اور جھاڑیوں میں کئی مہینے چھپانے کے بعد تقریباً 3 راتوں تک درخت سے لٹکایا جاتا تھا۔ پھر اسے سڑک کنارے رکھا جاتا تھا، ایک رات کے لیے کسی چرچ کے دروازے پر بھی لٹکایا جاتا ۔ اس دوران ہاتھ کاٹنے والا قریب ہی رہتا تھا۔ اور اگر اس دوران اس پر خوف طاری نہ ہو تو پھر اسے سچا اور ہاتھ کا حق دار سمجھا جاتا تھا۔
محفوظ کرنے کے بعد اسے کسی چیز میں اچھی طرح لپیٹ کر خون نچوڑنے کے بعد نمکیات اور مرچیں لگا کر تیز دھوپ میں خشک کر لیا جاتا۔ اس عمل کے بعد ’’ہاتھ‘‘ انتہائی بھیانک اور ڈرائونی چیز بن جاتا۔ 1886ء میں ولیم ہینڈرسن نے بھی برطانیہ کے شمالی قصبات میں مقیم دیہاتیوں کے بارے میں اپنی نظم میں ’’ہینڈ آف گلوری‘‘ کا ذکرکیا ہے ۔
’’ہینڈ آف گلوری‘‘ سے کئی کہانیاں وابستہ ہیں۔ ایک کہانی کے مطابق چور کٹا ہوا ہاتھ دکھا کر اہل خانہ کو بے ہوش کر دیتے، پھر مزے سے چوری کرتے۔ بے ہوش کر کے لوٹ مار کا ایک واقعہ 1686ء میں بھی پیش آیا۔ جان آبرے نے اپنے بچپن کی داستان میں لکھا کہ’’ اس کے زمانے میں چور رات کے اندھیرے میں کسی مردے کا ہاتھ موم بتی کی روشنی کے آگے کرتے، اہل خانہ خوف سے بے ہوش ہو جاتے۔ چور ایک خاص زاویے پر موم بتی کو رکھ کر کٹے ہوئے ہاتھ کے ساتھ باندھ دیتے تھے۔ جس کی روشنی میں ہاتھ بھیانک منظر پیش کرتا۔ تمام اہل خانہ دیکھتے ہی بے ہوش ہوجاتے۔ جس کے بعد چور اطمینان سے گھر کی ہر چیز لے اڑتے۔‘‘
کچھ کے نزدیک یہ ہاتھ علاج معالجے میں استعمال ہوتا تھا۔ پریمی اور ایلڈر نے 1977ء میں لکھا کہ ’’بعض لوگ کٹے ہوئے ہاتھ کی مدد سے گلے اور غدود کی بیماریوں کو ٹھیک کرنے میں شہرت رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں کسی نوجوان یا جوان کا ہاتھ کاٹ کر محفوظ کر لیا جاتا تھا۔ مرد کا ہاتھ مرد کی بیماریوں اور عورت کا ہاتھ عورت کی بیماریوں کے علاج میں استعمال ہوتا تھا۔ یہ عمومی طور پر بایاں ہاتھ ہوتا‘‘۔ مردہ جسموں کو جلد اور دیگر بیماریوں کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا، یہ وہاں ایک عام بات تھی۔ برطانیہ میں 16ویں صدی میں انسانی جسم کے مختلف اعضاء کو جادوگری میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اس صدی میں ہی جادوگروں کو سزائیں دینے کا آغاز ہوا۔ پھانسی پانے والے جادوگروں اور چوروں کے ہاتھ بھی کاٹے جاتے تھے۔ ابھی ان کا جسم پھندے پر ہی جھول رہا ہوتا تھا کہ کوئی آگے بڑھ کر بایاں ہاتھ کاٹ لیتا۔ یادرہے، 16ویں اور 17ویں صدی میں یورپ میں پھانسیاں عام تھیں۔ ذرا ذرا سی اشیاء کی چوری پر معصوم شہریوں کو پھانسی کے پھندے یا تختے پر لٹکا دیا جاتا۔
پانچ شلنگ کی معمولی چوری پر بھی پھانسی کی سزا ملتی تھی۔ حتیٰ کہ رومال چور بھی پھانسی کا حقدار ٹھہرایا جاتا۔ مضمون نگار لکھتی ہے کہ ’’اگرچہ زیادہ تر پھانسیاں ٹائون ہالوں میں دی جاتی تھیں مگر کچھ مجرموں کو سرعام بھی لٹکایا جاتا۔ کچھ جسم سڑکوں کے کناروں پر رکھ دئیے جاتے‘‘۔ اس طرح جلاد کو بھی ایک پھانسی سے اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی۔ وہ کئی مہینے تک جسم کے مختلف اعضا کو فروخت کرتا رہتا۔ مثلاً کوئی سر کے بال نوچ لیتا، تو کوئی نا ک کے۔ مردے کے بالوں کو بطور دھاگہ استعمال کیا جاتا تھا۔ کچھ لوگ جلد کے اعضا ’’ذہنی سکون‘‘ کے لیے بھی کاٹتے تھے۔ اذیت پسندی بھی عام تھی۔
تحریر: رحمیٰ فیصل