دبئی (نیٹ نیوز ) سکاٹ لینڈ سے 200 کلو میٹر شمال میں واقع جزائرِ فارو میں وہیل مچھلیوں کے شکار کی تصاویر نے ماحولیات کے تحفظ اور حیوانات کے دفاع کے کارکنان میں ایک بار پھر غم و غصّے کی لہر دوڑا دی ہے۔
جزائرِ فارو ڈنمارک کے تحت ایک خود مختار یورپی ریاست ہے تاہم وہ ڈنمارک یا یورپی یونین کے قوانین کی پابند نہیں۔ تصاویر میں درجنوں وہیل مچھلیاں اُس ساحلِ سمندر پر پڑی ہوئی نظر آ رہی ہیں جہاں اُن کو ہلاک کیا گیا۔ اس جگہ سمندر کا پانی مچھلیوں کے خون کے سبب سُرخ ہو گیا ہے۔
وہیل مچھلیوں کا شکار اور قتل 30 جولائی کو خلیجِ سینڈاویگر میں ہوا جو جزائرِ فارو میں شامل ایک مغربی جزیرے ویگر پر واقع ہے۔ شکار کی یہ کارروائی اُن قانونی کارروائیوں کی ہی کڑی ہے جو ہر سال موسمِ گرما میں ان جزائر میں دیکھنے میں آتی ہیں۔ یہ بات امریکی نیوز چینل نے جزائرِ فارو کی حکومت کے حوالے سے بتائی۔
ٹوئیٹر پر وہیل مچھلیوں کے قتل کی تصاویر پر تبصرہ کرتے ہوئے برطانیہ میں ایک پریشر گروپ بلیو پلینٹ سوسائٹی نے اس کارروائی کی سخت مذمت کی ہے۔ سوسائٹی کا کہنا ہے کہ جزائرِ فارو کو 21 ویں صدی سے مربوط ہو جانا چاہیے۔ سوسائٹی نے مزید کہا ہے کہ "یہ لوگ کسی قسم کے بھی احترام یا ہمدردی سے نابلد ہیں، یہ ان کے نزدیک ایک تفریحی عمل ہے"۔
تاہم جزائرِ فارو نے ایک بیان میں اعلان کیا ہے کہ "وہیل مچھلیوں کا شکار اُس کے شہریوں کے طرزِ زندگی کا حصّہ ہے۔ یہ کوئی تفریحی عمل نہیں، وہیل مچھلی کا گوشت قومی سطح پر غذائی نظام کا ایک اہم جُزو تھا اور رہے گا"۔ بیان کے مطابق وہیل مچھلیوں کا گوشت مقامی آبادی جس کی تعداد 50 ہزار کے قریب ہے، اُس میں تقسیم ہو جاتا ہے اوریہ گوشت فروخت نہیں کیا جاتا۔
وہیل مچھلیوں کا شکار اور قتل کی کارروائی صرف اس کا اجازت نامہ رکھنے والے افراد ہی انجام دیتے ہیں۔ یہ کام ایک تیز دھار آلے کے ذریعے بہت کم دورانیے میں پورا کیا جاتا ہے۔