لاہور: (ویب ڈیسک) اونٹ کو صحرائی جہاز کہا جاتا ہے جو صحرا میں لمبے سفر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، کچھ لوگوں کی اونٹ کے ساتھ انسیت اتنی ہوتی ہے کہ وہ اسے پالنے کا شوق رکھتے ہیں، چولستان سمیت صحرائی علاقے میں اونٹ کو بطور سواری بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم ایک حیران کن خبر آئی ہے، پاکستان میں حادثات کی روک تھام کیلئے اونٹوں پر ریفلیکٹرز لگانا شروع کر دیئے ہیں۔
خبر رساں ادارے کے مطابق پاکستان میں 12 لاکھ اونٹ موجود ہیں اور آبادی کے لحاظ سے 36 فیصد بلوچستان، 33 فیصد پنجاب اور اسکے بعد سندھ اور خیبر پختونخوا میں ملتے ہیں۔ گوادر، تربت، آواران، چاغی اور لسبیلہ میں ان اونٹوں سے سواری اور بار برداری کا کام لیا جاتا ہے۔
اسی طرح پنجاب کے چولستان میں اونٹ پالے جاتے ہیں جب کہ سندھ میں خاص طور پر تھر، کوہستان، سجاول اور عمرکوٹ کے باسی اونٹوں سے مختلف کام لیتے ہیں۔
معلوماتی تحریر کی بنیاد وہ خبر ہے جس کے مطابق موٹر وے پولیس نے اونٹوں کی گردنوں اور ٹانگوں پر ریفلیکٹرز پہنانے کا کام شروع کیا ہے تاکہ شاہراہ پر ڈرائیور دور ہی سے کسی اونٹ کی موجودگی سے باخبر ہوسکے۔
اس کے علاوہ سائن بورڈز بھی اس حوالے سے ڈرائیوروں کی رہنمائی کرتے ہیں تاہم اس اقدام کی وجہ بلوچستان کے راستے میں گاڑیوں کے اونٹوں سے ٹکرانے کے واقعات ہیں جو انسانی جانوں کے ضیاع اور اونٹوں کی ہلاکت کا باعث بنے ہیں۔
موٹروے پولیس نے اونٹوں کے مالکان سے بات چیت کرنے کے بعد انکی مدد سے پالتوں اونٹوں کو ریفلیکٹرز پہنائے ہیں جو روشنی پڑنے پر چمکتے ہیں اور یہی ڈرائیور کو کسی وجود کی سڑک یا اطراف میں موجودگی سے ہوشیار کرے گی۔
اونٹ پاکستان کے مخصوص علاقوں میں عام پالے جاتے ہیں۔ تاہم قدیم زمانے میں عربوں کی زندگی میں اس جانور کی بہت اہمیت رہی ہے۔ عربی زبان میں اونٹوں کے لیے کئی لفظ رائج ہیں۔ نر، مادہ اور لمبے یا نسبتاً چھوٹے قد والے اونٹ اور اسی طرح کوہان اور بالوں یا رنگت کے لحاظ سے بھی اس جانور کو مختلف نام دیے گئے ہیں۔
عربی اور اردو میں اس جانور سے متعلق کئی محاورے اور کہاوتیں بھی موجود ہیں۔ اسے صحرا کا جہاز بھی کہا جاتا ہے۔