برلن: (ویب ڈیسک) جرمنی میں قانون پر غور جاری ہے جس کے تحت کتوں کے مالکان کو اُنہیں دن میں دو مرتبہ ہوا خوری کے لیے گھر سے باہر لے جانا لازمی ہو گا۔ تجویز کا پیش ہونا تھا کہ جرمنی میں کتوں کے حقوق کی بحث چھڑ گئی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ کیا ریاست یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ ملک کے 94 لاکھ پالتو کتوں کی پرورش کے حوالے سے کیا درست ہے اور کیا نہیں؟
جرمنی کی وزیرِ زراعت جولیا کلویکنر نے رواں ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ ماہرین کی رائے کی بنا پر کتوں کے حقوق سے متعلق نیا قانون لا رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ نیا قانون متعارف کرانا چاہتی ہیں جس میں کتوں کے مالکان کے لیے یہ امر لازمی قرار دیا جائے گا کہ وہ اپنے پالتو جانوروں کو دن میں دو بار آدھے، آدھے گھنٹے کے لیے ہوا خوری کی غرض سے گھر سے باہر لے جائیں۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ پالتو جانور صرف دل بہلانے کے نہیں ہوتے بلکہ ان کی بھی ضروریات ہوتی ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ پالتو جانوروں کو ورزش کی ضرورت ہوتی ہے اور اُنہیں تنہا چھوڑ دینا مناسب نہیں۔
جرمنی میں ہر پانچواں گھرانہ کتا پالتا ہے۔ ایسے میں اگر اینیمل ویلفیئر ڈاگ ریگیولیشن نامی یہ قانون نافذ ہوگیا تو خدشہ ہے کہ اس سے آبادی کا ایک بڑا حصہ متاثر ہو گا۔
اس مجوزہ قانون میں کھیتی باڑی میں استعمال ہونے والے جانوروں کی گرم موسم میں نقل و حرکت پر بھی بعض پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ جرمنی کے ایک اخبار نے اپنے اداریے میں اس مجوزہ قانون پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے نامناسب قرار دیا ہے۔
ادھر جرمن ڈاگ ایسوسی ایشن کے ترجمان یوڈو کاپرنک کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ قانون کا لوگ مذاق اڑا رہے ہیں کیوں کہ وہ پہلے ہی اپنے پالتو جانوروں کو باہر لے جانے پر کئی گھنٹے صرف کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ قانون نیک نیتی پر مشتمل لگتا ہے لیکن یہ غیر حقیقی ہے۔
کتوں کی ٹرینر اینجا اسٹریگل کا کہنا ہے کہ کسی کتے کو ورزش کے لیے کتنا وقت درکار ہے، یہ اس کی صحت، عمر اور نسل پر منحصر ہے۔
انہوں نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایک نوجوان اور صحت مند لیبراڈار کے لیے دو گھنٹے کی واک صحت مند ورزش ہو سکتی ہے۔ لیکن آرتھرائٹس کے شکار پگ کے لیے یہ مناسب نہیں خاص طور سے جب کہ وہ امراضِ قلب کا بھی شکار ہو۔
جرمنی میں جرمن شیفرڈ اور چھوٹی ٹانگوں والے ڈاکس ہونڈ کتے مقبول ہیں جبکہ بہت سے لوگ لیبراڈار، جیک رسل ٹیریئر اور پگ بھی پالتے ہیں۔
اس قانون کا نفاذ بھی ایک دقت طلب معاملہ ہے۔ وزارتِ زراعت کا کہنا ہے کہ اس کے نفاذ کی ذمے داری ملک کی 16 وفاقی ریاستوں پر ہو گی مگر ابھی اس کی تفصیل جاری نہیں کی گئی۔