ایڈنبرا: (ویب ڈیسک) منگولیا کے صحرائے گوبی میں ڈائنو سارس کی نئی قسم کی دریافت ہوئی ہے جس کے منہ میں دانت نہیں تھے اور اس کی صرف دو ہی انگلیاں تھیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق ایڈنبرا یونیورسٹی کے تحقیق کاروں نے اس طرح کے ڈائنو سارس کے کئی ڈھانچے دریافت کیے ہیں۔ ان ڈائنو سارس کو اوکسوکو آوارسان کا نام دیا گیا ہے۔ اس جانور کی، جو ہزار کروڑ سال پہلے زمین پر رہتا تھا، لمبی چونچ تھی لیکن اس کے منہ میں کوئی دانت نہیں تھے۔
تحقیقاتی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے اس بات پر روشنی پڑے گی کہ کس طرح ارتقاء کے مراحل کے دوران کئی جانوروں کی انگلیاں اور انگوٹھا ختم ہوتا گیا۔
تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ دوسرے ڈائنو سارس کی نسبت اس سپیشی کے ہر سامنے والے بازو میں ایک انگلی کم تھی۔ ان ڈائنو سارس کے پر تھے اور وہ دو میٹر تک لمبے تھے، اور ان کی چونچ بالکل طوطے کی چونچ کی طرح تھی اویریپٹرز کے نام سے جانے جانی والی تین انگلیوں والے ڈائنو سارس کے خاندان میں ایک انگلی کی کمی کا یہ پہلا ثبوت ہے۔
ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ دریافت کہ ڈائنو سارس نے سامنے والے بازووں میں موافقت پیدا کی تھی یہ بتاتی ہے کہ انھوں نے اپنی خوراک اور طرز زندگی میں بھی تبدیلی پیدا کی ہوں گی اور اس طرح ممنکہ طور پر وہ پھلے پھولے ہوں گے۔
ٹیم کو یہ بھی معلوم ہوا کہ اوکسوکو آوارسان بھی کئی دوسری قدیم اور قبل از تاریخ سپیشیز کی طرح کم سنی میں سماجی جانور تھے۔ چار نوجوان ڈائنو سارس کے فوسل ایک ہی جگہ آرام کرتے ہوئے ملے ہیں۔
یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے سکول آف جیو سائنسز کے ڈاکٹر گریگری فنسٹن کے مطابق اس دریافت سے اس بات پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ کس طرح یہ طوطے کی طرح کے جانور 680 کروڑ سال زمین پر موجود رہے۔
اوکسوکو آوارسان اس لیے بھی دلچسپ ہیں کہ انکے ڈھانچے مکمل موجود ہیں اور جس طرح ان کے ڈھانچے ایک ساتھ آرام کرتے ہوئے ملے ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ گروہوں کی شکل میں ساتھ گھوما کرتے تھے۔
لیکن سب سے اہم یہ بھی کہ ارتقاء کے دوران کس طرح اویریپٹرز کے ہاتھوں اور سامنے والے بازووں میں تبدیلی آئی۔ اس طرح کی تحقیق پہلے نہیں ہوئی ہے۔ یہ دریافت اس پہیلی کے سلجھانے میں بھی اہم ثابت ہو سکتی ہے کہ ڈائنو سارس کے خاتمے سے پہلے اویریپٹرز کیوں اتنے زیادہ متنوع تھے۔