میکسیکو سٹی: (ویب ڈیسک) ماہرینِ آثاز قدیمہ نے ایزٹیک تہذیب پر تحقیق کے دوران میکسیکو شہر کے مرکز کے نیچے غیر معمولی انسانی کھوپڑیوں کے مینار کے مزید حصے دریافت کیے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق میکسیکو میں علمِ بشریات اور تاریخ کے قومی ادارے (آئی این اے ایچ) نے کہا ہے کہ اس بار 119 انسانی کھوپڑیاں دریافت کی گئی ہیں۔ یہ مینار پہلی بار 2015 میں دریافت کیا گیا تھا جب میکسیکو کے دارالحکومت میں ایک عمارت کی بحالی کا کام جاری تھا۔
یہ بھی پڑھیں: دادی نے اپنی پوتی کو ’جنم‘ دیدیا
خیال ہے کہ یہ کھوپڑیاں ایزٹیک تہذیب میں سورج کے خدا کے مندر کا حصہ تھیں۔ یہاں کے لوگ اسے جنگ اور انسانی قربانی کا خدا مانتے تھے۔
کھوپڑیوں کے اس مینار کو ہووی زمپانتلی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ اس تہذیب کے دارالحکومت کے بیچ و بیچ واقع تھا۔ ایزٹیک تہذیب کے لوگ 14ویں سے 16ویں صدی کے درمیان یہاں مرکزی میکسیکو کے اکثر علاقوں پر حکومت کرتے تھے۔
1521 میں ہسپانوی حملہ آوروں نے ہرنین کورٹیز کی قیادت میں ان کا تخت الٹ دیا تھا۔ جب ہسپانوی فوج اس شہر میں داخل ہوئی تھی تو ایسے ہی انسانی کھوپڑیوں کے مینار دیکھ کر اس کے جنگجو ڈر گئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ملیے دنیا کی 7 سالہ طاقتور لڑکی سے
یہ شہر آج میکسیکو سٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں ٹیمپلو میئر کی جگہ بڑا گرجا گھر تعمیر ہوا لیکن اب بھی کچھ آثار موجود ہیں، جیسے ایک بیلناکار شکل کی عمارت جو پہلے ایک بڑا مندر ہوا کرتا تھا۔
میکسیکو کے وزیر ثقافت الیہندرا فراستو کہتی ہیں کہ آج بھی ٹیمپلو میئر ہمیں حیران کرتا ہے اور بے شک ہووی زمپانتلی (کھوپڑیوں کا مینار) گذشتہ سالوں میں ہمارے ملک کی سب سے متاثر کن کھوج میں سے ایک ہے۔
ماہرین آثار قدیمہ نے اس عمارت کی تعمیر کے تین مراحل دیکھے ہیں جو سنہ 1486 سے 1502 کے بیچ تھے۔ اس مینار نے ابتدا میں ماہرین کو حیران کر دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: شیف نے چاکلیٹ سے ہاتھی بنا ڈالا، ویڈیو وائرل
وہ سمجھ رہے تھے کہ یہ کھوپڑیاں نوجوان جنگجوؤں کی ہوں گی۔ لیکن بعد میں پتا چلا کہ ایزٹیک دور کے ان میناروں میں خواتین کے بچوں کی کھوپڑیوں کے بھی مینار بنتے تھے۔ اس سے انسانی قربانی سے متعلق اس تہذیب کے تصورات پر کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
آثار قدیمہ کے ماہر راؤل بریرا کہتے ہیں کہ ’ہم اس بات کا اندازا نہیں لگا سکتے کہ ان میں سے کتنے لوگ جنگجو تھے۔ شاید کچھ لوگوں کو قربانی کی تقاریب کے لیے قیدی بنا کر رکھا گیا ہو۔ ہمیں یہ بھی نہیں پتا کہ آیا ان سب کو قربانی کی خاطر ہلاک کیا گیا، خدا کے لیے تحفے کے طور پر پیش کیا گیا یا اس سے ان خداؤں کی عکاسی کی کوشش کی گئی۔