مظفر آباد کا رتہ قلعہ جہاں بادشاہ اکبر نے قیام کیا

Published On 17 August,2021 06:51 pm

لاہور: (سپیشل فیچر) ریڈ فورٹ مظفر آباد میں سینٹر پلیٹ میں واقع ہے، اسے رتہ قلعہ یا صرف قلعہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس قلعہ کی تعمیر کشمیر کے چک حکمرانوں نے کی۔

کشمیر کے چک حکمرانوں نے شہر کو مغلوں کے لاحق خطرات اور دیگر دفاعی امور کے پیش نظر قلعے کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔ تعمیر کا آغاز 1559ء میں ایک اہم دفاعی مقام پر کیا گیا۔ 1587ء میں مغل حکمرانوں نے کشمیر پر قبضہ کیا تو ان کی عدم دلچسپی سے قلعہ اپنی اہمیت کھو گیا۔ بالاخر قلعے کی تعمیر 1646ء میں بمبہ راجہ خاندان کے سلطان مظفر خان اور مظفرآباد شہر کے بانی کے دور حکومت میں مکمل ہوئی۔

قلعہ کی ساخت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے ڈیزائن اور ساخت میں فن تعمیر کے عظیم ماہرین نے حصہ لیا۔ قلعہ کی تعمیر میں دریائی پتھروں، سرخ مٹی، اینٹوں اور چونے کا استعمال کیا گیا ہے۔

قلعہ کے تین اطراف سے دریائے نیلم رواں ہے جسے کشن گنگا بھی کہا جاتا ہے۔ قلعہ کا مشرقی حصہ سیلاب سے مکمل طور پر محفوظ رہا جبکہ اس کے شمالی حصہ کو دریا کے آنے والے سیلابوں سے متاثر ہونا پڑا۔

قلعہ کے تین حصے تھے پہلا مشرقی اور بالائی حصہ جو قلعہ کا داخلی حصہ تھا دوسرا زیریں جس میں سیڑھیاں تھیں جو کہ نیچھ دریا تک جاتی تھیں۔

دریائے کشن گنگا پہلے قلعہ کے شمالی حصہ کے ساتھ سے بہتا ہوا گزرتا تھا جو کہ وقت کی روانی کے ساتھ ساتھ قلعہ سے دور ہوتا چلا گیا۔

تیسرا درمیانی حصہ تھا جو کئی کمروں پر مشتمل تھا اور دیگر حصوں سے ملحق تھا۔ جب مغل بادشاہ اکبر نے اس علاقے کا دورہ کیا تو اس نے واپس مغل دارالخلافہ جانے کے لیے اسی راستے کا انتخاب کیا جب اکبر چکڑی بہک (موجودہ مظفر آباد ) پہنچا تو وہ یہاں پر ایک ہفتہ قیام پذیر رہا۔اس کے مستقبل کے دوروں کے لیے یہاں شاہی مسافر خانے کی تعمیر کو عمل میں لایا گیا۔

1846ء میں ڈوگرہ عہد کے مہا راجہ گلاب سنگھ نے دفاعی اور سیاسی حالات کے پیش نظر قلعہ کی تعمیر وتوسیع کا کام شروع کیا اور اس کے بعد آنے والے مہا راجہ رنبیر سنگھ کے عہد میں یہ کام مکمل ہوا۔

ڈوگرہ فوج نے قلعہ کو 1926ء تک استعمال کیا۔ اس کے بعد قلعہ کو ایک کنٹونمنٹ میں تبدیل کر دیا گیا۔ 1947ء کے وسط میں ڈوگرہ فوج قلعہ کو لاوارث چھوڑ کر چلی گئی اور یوں اس قلعہ کی تباہی کا آغاز ہو گیا۔

قلعہ کی حفاظت پر کسی نے توجہ نہ دی اور قلعہ میں موجود زیادہ تر نوادرات چوری ہو گئیں۔ قلعہ کا زیادہ تر حصہ اکتوبر 2005ء کے ہولناک زلزلے میں مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔

اب اس قلعہ کے صرف کھنڈرات باقی ہیں جو کہ اقتدار میں رہنے والی کئی حکومتوں کی عدم دلچسپی سے مزید تباہی اور خستہ حالی کی طرف گامزن ہیں۔

اگرچہ حکومت نے سیاحت کے فروغ اور قلعہ کی حفاظت کے لیے سٹاف مامور کر رکھا ہے لیکن قلعہ کی حالت زار ذمہ داران کی عدم دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مظفر آباد اس قلعہ کے بغیر ادھورا ہے۔

تحریر: رانا حیات
 

Advertisement