ریاض: (ویب ڈیسک) آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی ایک عالمی ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ شمالی سعودی عرب میں پہاڑ تراش کر بنائے گئے اونٹوں کے مجسمے 7000 سے 8000 سال قدیم تھے، یعنی یہ اہرامِ مصر سے بھی تقریباً 4000 سال پرانے ہیں۔
جرنل آف آرکیالوجیکل سائنس رپورٹس‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہونے والے ریسرچ پیپر کے مطابق، یہ مجسمے پہلی بار 2018 میں دریافت ہوئے تھے جنہیں ابتدائی معائنے کے بعد 2000 سال قدیم قرار دیا گیا تھا۔
حالیہ تحقیق میں ’’ پورٹیبل ایکسرے فلوری سینس اینالیسس کہلانے والی جدید ترین تکنیک استعمال کرتے ہوئے ان مجسموں کی تاریخ کا نئے سرے سے اندازہ لگایا گیا جبکہ اس معاملے میں ارد گرد کے علاقے سے ملنے والے دیگر آثار سے بھی مدد لی گئی۔
مقالے کی مرکزی مصنفہ اور میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ جرمنی کی ماہرِ آثارِ قدیمہ، ماریا گواگنن کہتی ہیں کہ اگرچہ آج یہ مجسمے ٹوٹ پھوٹ چکے ہیں اور ان کے کئی حصے (پینل) بھی گر چکے ہیں لیکن ہزاروں سال پہلے یہ عظیم الشان رہے ہوں گے۔
پہاڑوں میں تراشے گئے اونٹوں کے ان مجسموں کی تعداد تقریباً درجن بھر ہے۔ ان کے علاوہ، دو اور جانوروں کے مجسمے بھی ان ہی پہاڑوں میں تراشے گئے ہیں جو شاید گدھوں، گھوڑوں یا خچروں کے تھے۔ وہ بھی اتنے ہی قدیم ہیں۔
اپنی جسامت کے اعتبار سے یہ مجسمے اصل اونٹوں جتنے ہیں اور جس طرح یہ پہاڑوں میں بنائے گئے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں تراشنے والے مجسمہ سازوں نے شاید رسیوں سے لٹک کر یہ فن پارے تخلیق کیے ہوں گے۔
ارد گرد کے علاقے سے ملنے والے دیگر آثارِ قدیمہ کا جائزہ لینے کے بعد ماہرین کا خیال ہے کہ یہاں مستقل آبادی نہیں تھی، بلکہ سال میں کچھ مخصوص مواقع پر چند دنوں کے لیے انسانوں کی بڑی تعداد اس جگہ قیام کرتی تھی۔