ایک ویڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ اتوار کی رات داغے گئے ایک پیٹریاٹ میزائل نے فضا میں راستہ تبدیل کیا اور ریاض کے رہائشی علاقے میں گر کر پھٹ گیا، دوسرا داغے جانے کے کچھ دیر بعد ریاض میں ہی دھماکہ سے پھٹ گیا۔ رابطے پر سعودی وزارت اطلاعات نے جواب دینے سے گریز کیا۔
کیلیفورنیا کے مڈل بری انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل سٹڈیز کے میزائل ایکسپرٹ جیفری لیوس کے مطابق میزائلوں کو مار گرانا تودور کی بات ہے ،غالب امکان یہ ہے کہ کوئی میزائل روکا بھی نہیں جاسکا ہو گا ۔سعودی عرب کہتا ہے کہ تین سال سے جاری یمن جنگ کے دوران اس نے حوثی باغیوں کے داغے گئے 90میزائلوں کو نشانہ بنایا۔
اتوار کے حملے میں میزائل کے ٹکڑے کی وجہ سے ایک مصری ہلاک جبکہ دو زخمی ہوئے ،جوکہ تین سالہ یمن جنگ کے دوران سعودی دارالحکومت میں پہلا جانی نقصان ہے ۔ اس سے قبل حوثی باغیوں کے راکٹ حملوں میں سعودی عرب کے دیگر علاقوں میں ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ سعودی فوج کے مطابق گزشتہ رات حوثی باغیوں کے داغے گئے 7بیلسٹک میزائل روکے گئے، جن میں تین کا ہدف ریاض، دو کاہدف جازان،جبکہ ایک نجران اور ایک خمیس مشیط کی جانب داغا گیا تھا۔سعودی عرب کے سرکاری نیوز چینل العربیہ نے جو فوٹیج جاری کی ہے اس میں پیٹریاٹ میزائل بیٹریوں کو ریاض کی جانب بڑھتے حوثیوں کے میزائلوں کا راستہ روکتے دیکھا جا سکتا ہے ۔
ایک پیٹریاٹ میزائل چلائے جانے کے چند سیکنڈ بعد ہی پھٹ گیا جس کے آگ کے گولوں جیسے ٹکڑوں کے زمین پر گرنے کیساتھ لوگوں کے شور کی آواز سنی جا سکتی ہے ۔ ایک او رآن لائن ویڈیو میں پیٹریاٹ میزائل کو اچانک راستہ بدل کر قریبی رہائشی علاقے میں پاش پاش ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔ سعودی کرنل ترکی المالکی نے اپنے بیان میں کہا کہ ساتوں میزائل فضا میں روک کر تباہ کر دیئے گئے تھے۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق سعودی ایئر ڈیفنس فورسز زیادہ تر پیٹریاٹ پیک 2میزائلوں پر انحصار کرتی ہیں، 1980کی دہائی میں تیار کئے گئے یہ میزائل دشمن کی جانب سے داغے گئے میزائل کے قریب پہنچ کر ایک شاٹ گن شیل کی طرح پاش پاش کرکے اسے تباہ کر دیتے ہیں ۔ان کے مطابق حوثی میزائلوں کے تباہ شدہ ٹکڑوں پر ایسے کوئی نشان نہیں ملے جو ظاہرکریں کہ وہ پیک 2میزائلوں کا نشانہ بنے۔
ریاض پر حملوں میں حوثی ‘‘برکان’’یا ‘‘والکینو’’میزائل استعمال کرتے ہیں جن پر نصب وارہیڈز میزائل سے علیحدہ ہو جاتے ہیں، جس سے انہیں نشانہ بنانا بہت مشکل ہے ۔ ڈیفنس ویکلی کے تجزیہ کار جریمی بینی کے مطابق 1990کی دہائی کے پیک 2میزائل صرف کم رفتار، شارٹ رینج اور علیحدہ نہ ہونیوالے بیلسٹک میزائلوں کو روکنے کیلئے ڈیزائن کئے گئے تھے، برکان میزائل کے حصوں میں بٹنے کے بعد اسے روکنا پیک 2میزائل کیلئے بہت مشکل ہے ۔ اسی شبہ کا اظہار جیفری لیوس کرتے ہیں، ان کے مطابق‘‘ریاض پر جو میزائل حوثیوں نے داغے، ان کا پیٹریاٹ سسٹم سے درحقیقت کوئی جوڑ نہیں بنتا۔ حوثیوں کے میزائل کی رینج ایک ہزار کلومیٹر اور اس کا وارہیڈ علیحدہ ہو جاتا ہے۔
مجھے نہیں لگتا کہ اس میزائل کو روکنے میں کوئی کامیابی ملی ہو گی’’۔ سعودی عرب کے پاس پیک 3پیٹریاٹ میزائل بھی ہیں، جوکہ مخالف سمت سے آنیوالے میزائل سے براہ راست ٹکرانے کیلئے ڈیزائن کئے گئے ہیں۔
2015میں ان میزائلوں کی فروخت کا اندازہ 5.4ارب ڈالر لگایا گیا تھا، جسے صدر ٹرمپ نے خوب سراہا۔ نومبر میں ٹرمپ نے ریاض پر داغے گئے حوثی میزائل کو پیٹریاٹ میزائل سسٹم سے نشانہ بنانے پر کہا ،‘‘ہمارے سسٹم سے اسے مار گرایا’’۔ تاہم جیفری لیوس اور دیگر ماہرین کو یقین نہیں کہ کوئی پیٹریاٹ میزائل حوثی راکٹ فضا میں روک سکتا ہے۔
پیٹریاٹ میزائل سسٹم 1991کی خلیجی جنگ میں معروف ہواجس میں امریکی فورسز نے عراقی آمر صدام حسین کی فوج کو کویت سے نکال باہر کیا۔ امریکی حکام نے شروع میں دعویٰ کیا کہ پیٹریاٹ نے صدام حسین کے تقریباً تمام سکڈ میزائل تباہ کر دیئے تھے ۔بعدازاں معلوم ہوا کہ ان میزائلوں سے ہلاکتوں کا تناسب صرف 9فیصد تھا۔ یمن کی جنگ میں اب تک 10ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جوکہ ستمبر 2014میں یمن کے دارالحکومت صنعا پر حوثی باغیوں اور ان کے اتحادیوں کے قبضے، بعد ازاں جنوب کی جانب ان کی پیش قدمی سے شروع ہوئی۔ یہ خانہ جنگی مشرقی وسطیٰ کی طاقتوں کی مداخلت کے باعث ایک پراکسی جنگ میں بدل چکی ہے۔
اقوام متحدہ ، مغربی ممالک اور یمن کی جنگ میں شریک سعودی فوجی اتحاد سب کا کہناہے کہ برکان میزائل میں ایرانی ساختہ قیام بیلسٹک میزائل کی خصوصیات ہیں، مزید یہ کہ ایران نے حوثی باغیوں کیساتھ اگر میزائل ٹیکنالوجی شیئر نہیں کی تو پھر میزائلوں کے مختلف حصے سمگل کئے جنہیں بعدازاں حوثی باغیوں نے اسمبل کر لیا۔ ایران نے حوثی باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنے کی ہمیشہ تردید کی ہے حالانکہ شواہد ایرانی دعوے کی تصدیق نہیں کرتے ۔ سعودی اتحاد کو لاجسٹک سپورٹ اور اسلحہ امریکہ فراہم کرتا ہے، امریکہ پریمن میں ڈرون حملوں جن میں زیادہ عام شہری ہلاک ہوتے ہیں اور یمن کی بندرگاہوں کی ناکہ بندی کرنے کی وجہ سے کڑی تنقید ہوتی ہے، یہ ناکہ بندی یمن کو قحط کے دہانے پر لے آئی ہے۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ اتوار کے میزائل حملے پر سعودی اتحاد کیسا ردعمل دے گا، اس سے قبل ریاض پر میزائل حملوں کے جواب میں سعودی اتحاد نے فضائی حملے تیز کر دیئے تھے ۔ سوموار کو یمن کی جنگ کی تیسری سالگرہ کے موقع پر حوثی رہنماؤں نے خبردار کیا کہ وہ سعودی فضائی حملوں کا سخت جواب دینگے ۔ حوثی رہنما صالح الصمد نے ہزاروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا،‘‘جیسے ہم نے پہلے بھی کہا تھا ، اگر تم فضائی حملے بند کرتے ہو تو ہم بھی میزائل حملے بند کر دینگے ۔لیکن اگر تم نے فضائی حملے جاری رکھے تو اپنے دفاع میں ہم ہر حربہ استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں’’۔