شام کے شہر حلب میں جمعرات کے روز بشار الاسد کی فوج کے میجر سومر زیدان کی آخری رسومات ادا کی گئیں جس کے بعد سومر کو لاذقیہ صوبے میں اس کے آبائی علاقے میں دفن کیا جانا تھا۔ آخری رسومات میں شامی فوج کے افسران کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
سومر کی ہلاکت کے حوالے سے متضاد رپورٹیں موصول ہوئیں۔ اس سلسلے میں "ابو عمارہ بریگیڈ فار اسپیشل مشنز" نامی تنظیم نے سومر کے قتل کی ذمے داری قبول کی۔ تنظیم کے مطابق شامی فوج کے اس افسر کو بدھ کے روز خناصر کے علاقے میں ہلاک کیا گیا۔ البتہ اس کے مارے جانے کا اعلان جمعرات کے روز سامنے آیا۔
میجر زیدان کا پورا نام سومر مالک زیدان ہے۔ اس کا تعلق لاذقیہ صوبے کے شہر "جبلہ" سے ہے۔ یہ علاقہ بشار الاسد کی حکومت کو جنگجو فراہم کرنے کا گڑھ شمار کیا جاتا ہے۔ سومر کو شامی حکومت کی فوج کا سب سے زیادہ خونی افسر قرار دیا جاتا ہے۔ وہ حلب کی جیلوں میں گرفتار شدگان پر تشدد اور ان میں ایک بڑی تعداد کو ٹھکانے لگانے کے حوالے سے مشہور رہا۔
سومر زیدان گزشتہ سات برس یعنی انقلابی تحریک کے آغاز سے حلب شہر میں بشار الاسد کے سکیورٹی اداروں کے لیے خدمات انجام دے رہا تھا۔ وہ حلب صوبے کے مختلف علاقوں میں شامی اپوزیشن کے ارکان کو موت کے گھاٹ اتارنے کے حوالے سے جانا گیا۔ حلب کے شامی اپوزیشن گروپوں کے ہاتھ سے نکل جانے اور شہر کی تباہی میں سومر کا اہم کردار رہا۔ اس امر نے سومر کو شامی حکومت کی نظر میں "ہیرو" بنا دیا۔
شامی اپوزیشن سومر کو اُن قیدیوں کے خلاف درجنوں جرائم کے ارتکاب کا ذمے دار ٹھہراتی ہے جنہوں نے اس کے ہاتھوں اپنی زندگی کا اختتام دیکھا۔ وہ سیاسی سکیورٹی کے میدان میں انتہائی اثر و رسوخ کا حامل افسر تھا۔
اگرچہ سومر "سیاسی سکیورٹی" کا افسر تھا تاہم اس نے ہمیشہ بشار الاسد کی فوج کی سرکاری وردی پہنی اور بشار کی فوج کی صفوں میں لڑتا رہا۔ سومر حلب شہر میں قتل اور تشدد کی کارروائیاں انجام دینے والے معروف ترین افسران میں رہا۔
یاد رہے کہ شامی حکومت نے سرکاری طور پر میجر سومر مالک زیدان کو اعزاز و اکرام سے نوازا۔ سومر کے وڈیو کلپس نشر کیے جاتے تھے جن میں وہ شامی اپوزیشن کو اجتماعی طور پر فنا کر دینے کی دھمکیاں دے کر چیلنج کرتا تھا۔