ریاض (نیٹ نیوز ) مُملکت سعودی عرب ایک ہی وقت میں ریگستانوں، صحراؤں، ساحلوں، سرسبز وشاداب وادیوں، گرم ترین میدانوں اور سرد پہاڑوں پر مشتمل سرزمین ہے۔
مکہ معظمہ شہر جو اپنی گرم آب وہوا کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے مگر وہاں سے چند درجن کلومیٹر کی مسافت پر فضاء اور موسم بالکل بدل جاتا ہے۔ گرمیوں میں سعودی عرب کے یہ پہاڑی علاقے سیاحوں کی توجہ کا خاص مرکز رہتے ہیں۔ محض چند منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد کوئی بھی مسافر 45 سینٹی گریڈ سے نکل کر 28 اور 23 درجے سینٹی گریڈ میں پہنچ سکتا ہے۔
ایک ویب سائٹ نے ایک رپورٹ میں سعودی عرب کے ان دلفریب اورپیچ دار پہاڑی راستوں کا تعارف کرایا ہے جو سعودی عرب کی ترقی کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ مملکت کے قدرتی حسن کو مزید چار چاند لگا رہی ہیں۔
ان خم دار پہاڑی سڑکوں کو ’الھدا‘ کہا جاتا ہے۔ مکہ معظمہ، جدہ اور طائف کے درمیان پھیلے پہاڑی سلسلوں میں صرف 23 کلومیٹر کی مسافت کے بعد درجہ حرارت آدھا کم یا زیادہ ہو جاتا ہے۔ ’کرا‘ کے مقام سے شروع ہونے والی اس سڑک کے ایک کنارے پر اگر درجہ حرارت 45 درجے سینٹی گریڈ ہے اور دوسرے پر 20 بھی ہو سکتا ہے۔
بعض لوگ ’الھدا‘ کو ’شاہراہ الکر یا ’کرا‘ کا نام بھی دیتے بھی دیتے ہیں۔ یہ مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان واقع ہے۔ سڑک کا زیادہ تر حصہ دشوار گذار پہاڑوں پر واقع ہے اور جگہ جگہ اسے پلوں کی مدد سے باہم ملایا گیا ہے۔
’الکر ۔ الھدا‘ کو موسم گرما کی دوران سعودی عرب کی مصروف تین شاہراہ قرار دیا جاتا ہے جہاں سیاحوں کا رش لگارہتا ہے۔ بلند وبالا علاقوں میں اوسط درجہ حرارت 20 اور 28 درجے سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔
پہاڑی علاقوں کی یہ دلفریب روڈ فن تعمیر کا بھی شاہکار ہے۔ کرا روڈ کی مجموعی لمبائی 87 کلومیٹر ہے مگر یہ سڑک مختلف شہروں میں منقسم ہے۔ مکہ سے عرفات تک 21 کلومیٹر، عرفات سے کرا تک 23، کرا سے الھدا تک 23 کلومیڑ پر مشتمل ہے جب کہ الھدا سے طائف تک کا راستہ 20 کلومیٹر ہے جو پوری سڑک کا سب سے مشکل اور پرخطر حصہ سمجھا جاتا ہے۔
پیچ دار تاریخی راستہ
تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ دس صدیاں پیشتر یعنی اسلام کے اتبدائی دو سو سال کے دوران بھی یہ راستہ موجود تھا جو پتھروں سے تیار کیا گیا تھا۔ یہ پہاڑ کی بلندی سے نشیب کی طرف پیچ دار پکڈنڈی جس کے ساتھ ساتھ پانی کی نالی بھی تیار کی گئی تھی۔ پرانے دور میں اس راستے پر چلنے کے لیے مختلف مقامات پر پتھروں پر سفری ہدایات کندہ کی گئی بھی ملتی ہیں۔
انہی میں ایک الجمالہ روڈ ہے کو ایک تاریخی راستہ کہلاتا ہے۔ مکہ معظمہ اور طائف کے درمیان یہ راستہ گاڑیوں کی ایجاد سے پہلے بھی رابطے کا اہم ذریعہ تھا۔ اس راستے سے تجارتی اور حجاج کے قافلے گذرتے۔ لوگ پیدل، اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار ہوتے۔
تبدیلی کی جست
’کرا‘ روڈ کا افتتاح اور پہلی توسیع شاہ خالد کے دور 1398ھ میں کی گئی تاہم سنہ 1427ھ میں شاہ عبداللہ نے سڑک کو دو رویہ تیار کرنے کے منصوبے کی منظوری دی۔
سڑک کی وسعت پذیری کے ساتھ اس پر ٹریفک کا رش بھی بڑھتا گیا۔ سیاح ملک کے دور دراز علاقوں سے ان پہاڑی دلفریب گھاٹیوں اور وادیوں کو دیکھنے کرا روڈ پر سفر کرتے ہیں۔
جنگلی حیات
کرا کے پہاڑی علاقوں میں عرب نسل کے چیتے اور بندر بھی بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ گذشتہ کچھ عرصے سے چیتا نہیں دیکھا گیا۔ طائف کی وادی میں درخت کثرت سے موجود ہیں جہاں پر جنگلی حیات بھی پائی جاتی ہیں تاہم دیگر سنگلاخ پہاڑوں پر خشکی کا غلبہ رہتا ہے۔
فوٹو گرافروں کا مقابلہ
اپنے قدرتی حسن کی بدولت کرا اور دیگر پہاڑی علاقوں میں سفر کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد فوٹو گرافروں کی ہوتی ہے جو سفر اور سیاحت سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ وہاں کے قدرتی مناظر کو اپنے کیمرے میں محفوظ کرتے اور دوسروں تک انہیں پہنچاتے ہیں۔
ایک مقامی فوٹو گرافر’محمد الھذلی‘ کی لی گئی تصاویر العربیہ ڈات نیٹ نے اپنے قارئین کے لیے منتخب کی ہیں۔