کابل: (ویب ڈیسک) افغان شہر غزنی میں طالبان سے جاری جھڑپوں میں تین روز کے دوران 80 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے افغان آرمی چیف کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند عام شہریوں کے گھروں میں چھپے بیٹھے ہیں۔ غزنی پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں میں شدید لڑائی جاری ہے۔
صوبائی کونسل کے رکن ناصر احمد نے ایک بیان میں بتایا کہ ابتدائی رپورٹس کے مطابق تین روز سے جاری شدید لڑائی میں 80 افغان سیکیورٹی اہلکار مارے گئے ہیں اور ان کی لاشوں کو غزنی سٹی اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت غزنی میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے، حملہ آوروں سے صرف افغان پولیس اور ملکی خفیہ ایجنسیاں نبرد آزما ہیں انہیں کسی آرمی کی مدد حاصل نہیں۔
دوسری جانب افغان آرمی چیف آف اسٹاف محمد شریف نے غزنی کی صورتحال پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ طالبان عسکریت پسندوں نے عام شہریوں کے گھروں میں پناہ لے رکھی ہے اور وہ شہریوں کے گھروں میں چھپے بیٹھے ہیں جن کی نشاندہی اور تلاش کے لیے شہریوں سے تعاون کی اپیل کی جاتی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ شہر کی اہم سرکاری تنصیبات کا کنٹرول حاصل کرلیا گیا ہے اور افغان فورسز طالبان کے کسی بھی حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
واضح رہے کہ افغانستان کے اہم شہر غزنی پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان تین روز سے شدید لڑائی جاری ہے، طالبان سرکاری عمارتوں پر حملے کر رہے ہیں جبکہ سیکیورٹی فورسز ان کے حملے ناکام بنانے کے لیے مسلسل کارروائیاں کر رہی ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ حملہ آور ہونے والے طالبان کی تعداد سیکڑوں میں ہے جو جتھے بنا کر پولیس کی چوکیوں اور اہم تنصیبات پر حملہ کر کے ان کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔
عالمی میڈیا کا کہنا ہے کہ غزنی میں شدید لڑائی کے باعث نظام زندگی معطل ہوچکا ہے رابطے منقطع ہونے کے باعث مصدقہ خبر سامنے نہیں آرہی تاہم دونوں فریقین کا کہنا ہے کہ غزنی ان کے کنٹرول میں ہے لیکن اس کی تصدیق فی الوقت ممکن نہیں۔