لاہور: (دنیا نیوز) آنگ سان سوچی نے ویتنام میں اجلاس کے دوران کہا کہ صحافیوں نے قانون توڑا ،لہذا ان کی سزا کا آزادیِ اظہار سے کوئی تعلق نہیں۔
میانمار کی ایک عدالت نے تین ستمبر کو خبر رساں ادارے روئٹرز کے دو صحافیوں کو ملکی رازوں سے متعلق قانون کی خلاف ورزی کے جرم میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے روہنگیا کے خلاف تشدد کی تفتیش کے دوران ملکی راز کی خلاف ورزی کی ہے۔
صحافی وا لون اور کیاو او کو سرکاری دستاویزات کے ساتھ گرفتار کیا گیا جو انھیں کچھ دیر قبل پولیس نے دی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بے گناہ ہیں اور یہ کہ پولیس نے انھیں جال میں پھنسایا ہے۔ 32سالہ وا لون اور 28 سالہ کیاو سیو او شمالی رخائن کے گاؤں اندن میں فوج کے ہاتھوں دس افراد کے قتل کے متعلق شواہد اکٹھا کر رہے تھے۔ یہ دونوں صحافی گذشتہ سال دسمبر میں گرفتاری کے بعد سے قید میں ہیں۔
تفتیش کے دوران انھیں دو پولیس افسروں نے دستاویزات پیش کیں لیکن پھر ان دستاویزات کے ان کی تحویل میں ہونے کے جرم میں انھیں فورا گرفتار کر لیا گيا۔ اس کے بعد حکام نے اس گاؤں میں ہونے والے قتل کے معاملے میں اپنی تفتیش کروائی اور تسلیم کیا کہ وہاں قتل عام ہوا تھا اور وعدہ کیا کہ اس کے مرتکبین کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ یہ فیصلہ رخائن صوبے میں پیدا ہونے والے بحران کے ایک سال بعد آيا جو کہ ایک روہنگیا جنگجو گروپ کی جانب سے کئی پولیس چوکیوں کو نشانہ بنانےکے بعد شروع ہوا تھا۔
اس کے بعد فوج نے روہنگیا اقلیت کے خلاف بہیمانہ کارروائی کی۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں میانمار کے اعلی فوجی افسروں کی جانچ ہونی چاہیے اور ان پر نسل کشی کا مقدمہ چلنا چاہیے۔ رخائن میں میڈیا پر حکومت کا شدید کنٹرول ہے اس لیے وہاں سے قابل اعتماد خبر کا حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے۔ میانمار کی فوج کا کہنا ہے وہ رخائن میں روہنگیا عسکریت پسندوں کے خلاف لڑ رہی ہے جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں عام شہری ہلاک کیے گئے۔