انقرہ: (دنیا نیوز) برطانوی اخبار نے نیا دعویٰ کر دیا ہے کہ جمال خشوگی کو قتل کرنے کے منصوبے سے برطانوی حکام آگاہ تھے، واقعے سے تین ہفتے پہلے معلومات ملنے کے بعد منصوبہ سازوں کو باز رکھنے کی کوشش بھی کی گئی۔
سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل سے متعلق نیا انکشاف سامنے آیا ہے۔ برطانوی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ صحافی کے قتل کے منصوبے سے متعلق لندن کو تین ہفتے قبل ہی اطلاعات موصول ہوچکی تھی۔ رپورٹس کے مطابق لندن نے اس منصوبے پر عمل در آمد نہ کرنے کی تنبیہ بھی کی تھی۔
لندن میں خبر ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے صحافی جمال خشوگی کی منگیتر کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت جانتی ہے کہ خشوگی کی لاش کہاں ہے، لاش حوالے کی جائے۔ خدیجہ چنگیزی نے کہا وہ انسانی بنیاد پر باقیات حوالگی کا مطالبہ کر رہی ہیں،انہوں نے امریکی صدر کو پیغام دیا کہ وہ ملزمان کو راستہ دینے کی کوشش نہ کریں۔ سعودی صحافی جمال خشوگی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے میں قتل کیا گیا تھا۔
جمال خشوگی کون ہیں؟
ایک زمانے میں خاشقجی سعودی عرب کے شاہی خاندان میں مشیر ہوا کرتے تھے لیکن پھر وہ تیزی سے سعودی حکومت کی نظرِ عنایت سے دور ہوتے گئے یہاں تک کہ گذشتہ سال سے وہ خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزارنے لگے۔یہاں ہم ان کے کریئر اور ان واقعات پر روشنی ڈال رہے جو بالاخر پر ان کی گمشدگی کا باعث بنا۔ جمال خاشقجی سنہ 1958 میں مدینہ میں پیدا ہوئے اور انھوں نے امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے بعد وہ سعودی عرب لوٹ آئے اور ایک صحافی کے طور پر سنہ 1980 کی دہائی میں اپنے کریئر کا آغاز کیا۔ انھوں نے ایک مقامی اخبار میں سوویت روس کے افغانستان پر حملے کی رپورٹنگ سے اپنی صحافت شروع کی۔اس دوران انھوں نے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن پر قریب سے نظر رکھی اور سنہ 1980 اور 90 کی دہائیوں میں کئی بار ان سے انٹرویو کیا۔
سنہ 1990 کی دہائی میں وہ پوری طرح سعودی عرب منتقل ہو گئے اور سنہ 1999 میں وہ انگریزی زبان کے اخبار عرب نیوز کے نائب مدیر بن گئے۔سنہ 2003 میں وہ الوطن اخبار کے مدیر بنے لیکن عہد سنبھالنے کے دو ماہ کے اندر ہی انھیں ایک کہانی شائع کرنے کی وجہ سے وہاں سے نکال دیا گیا۔ اس میں سعودی عرب کی مذہبی اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔برطرفی کے بعد پہلے لندن اور پھر واشنگٹن منتقل ہو گئے جہاں وہ سعودی عرب کے سابق انٹیلیجنس چیف شہزادہ ترکی کے میڈیا مشیر بن گئے۔اس کے بعد وہ سنہ 2007 میں پھر الوطن میں واپس آئے لیکن تین سال بعد مزید تنازعات کے بعد انھوں نے اخبار کو چھوڑ دیا۔سنہ 2011 میں پیدا ہونے والی عرب سپرنگ تحریک میں انھوں نے اسلام پسندوں کی حمایت کی جنھوں نے کئی ممالک میں اقتدار حاصل کیا۔سنہ 2012 میں انھیں سعودی عرب کی پشت پناہی میں چلنے والے العرب نیوز چینل کی سربراہی کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس چینل کو قطری نیوز چینل الجزیرہ کا حریف کہا جاتا ہے۔لیکن بحرین میں قائم کیا جانے والا نیوز چینل سنہ 2015 میں اپنے آغاز کے 24 گھنٹوں کے اندر ہی بحرین میں حزب اختلاف کے ایک معروف رہنما کو مدعو کرنے کے سبب بند کر دیا گیا۔
سعودی امور پر ماہرانہ رائے رکھنے کی حیثیت سے جمال خاشقجی بین الاقوامی سطح پر مختلف نیوز چینلز کو مستقل طور پر اپنی خدمات فراہم کرتے رہے۔سنہ 2017 کے موسم گرما میں وہ سعودی عرب چھوڑ کر امریکہ منتقل ہو گئے تھے۔انھوں نے واشنگٹن پوسٹ اخبار کے اپنے پہلے کالم میں لکھا کہ کئی دوسرے لوگوں کے ساتھ انھوں نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی ہے کیونکہ انھیں گرفتار کیے جانے کا خوف ہے۔
انھوں نے سعودی حکومت پر یہ الزام بھی لگایا کہ انھوں نے عربی اخبار الحیات میں ان کا کالم بند کروا دیا اور انھیں اپنے 18 لاکھ ٹوئٹر فالوورز کے لیے ٹویٹ کرنے سے اس وقت روک دیا گیا جب انھوں نے سنہ 2016 کے اواخر میں اپنے ملک کو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو والہانہ طور پر گلے لگانے کے جذبے کے خلاف خبردار کیا تھا۔انھوں نے لکھا: میں نے اپنا گھر، اپنی فیملی، اپنا کام سب چھوڑا اور میں اپنی آواز بلند کر رہا ہوں۔ اس کے برخلاف کام کرنا ان لوگوں کے ساتھ غداری ہوگی جو جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ میں بول سکتا ہوں جبکہ بہت سے لوگ بول بھی نہیں سکتے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ سعودی عرب ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ ہم سعودی اس سے بہتر کے حقدار ہیں۔
خشوگی کی لاش کہاں ہے؟
منحرف سعودی صحافی جمال خشوگی کی لاش کا تاحال سراغ نہیں لگایا جاسکا ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب نے سرکاری طور پر اعلان کیا ہے کہ جمال خشوگی استنبول میں سعودی قونصلیٹ کی حدود ہی میں ہلاک ہوا تھا۔ اس حوالے سے سعودی حکام نے جمال خشوگی کے قتل میں ملوث درجنوں سیکورٹی و انٹیلی جنس اہلکاروں کی گرفتاری و برطرفی کے احکامات بھی جاری کر دیئے ہیں۔ سعودی میڈیا کے مطابق شاہ سلمان بن عبد العزیز نے تازہ احکامات میں انٹیلی جنس میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا حکم دیا ہے جبکہ ولی عہد محمد بن سلمان کے کئی قریبی انٹیلی جنس افسران کو برطرف بھی کردیا گیا ہے۔ ادھر ترک وزارت خارجہ نے سعودیہ کی جانب سے جمال خشوگی کی قونصل خانے میں ہلاکت کے اعتراف کے بعد کہا ہے کہ خشوگی کی ہلاکت کا کیس ترک قوانین کے تحت چلایا جائے گا۔ کیونکہ یہ ایک کرمنل مرڈر کیس ہے اور ترکی میں ہوا ہے۔ اس لئے اس پر ویانا کنونشن کا اطلاق نہیں کیا جائے گا۔ ادھر ترک پراسکیوٹرز آفس نے بتایا ہے کہ جمال خشوگی کی لاش کی بابت سعودی حکام نے کچھ نہیں بتایا ہے کہ برطرف اہلکاروں نے جمال خشوگی کی لاش کو کہاں ٹھکانے لگایا۔ جبکہ ترک حکام انتہائی شد و مد کے ساتھ جمال خشوگی کی لاش کو تلاش کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکی نیوز پورٹل اسکائی نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ جمال خشوگی کی لاش کے ٹکڑوں کو انتہائی مرتکز تیزابی مادے میں ڈال کر گھلا دیا گیا ہے۔ امریکی صحافی رسل ہوپ اور ایلکس کرلبٹسن کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جمال خشوگی کی لاش کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر اس کو ’’فاسٹ ایکٹنگ کیمیکل ایسڈ‘‘ میں ڈال کر ختم کیا جاچکا ہے۔ ترک میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ جمال خشوگی کو ٹارچر کرنے کا آغاز سعودی قونصل جنرل کے روبرو کیا گیا تھا جس پر ان کو خفیہ ریکارڈنگ میں ’’ہٹ اسکواڈ‘‘ کو کہتے سنا جاسکتا ہے کہ یہ سب باہرجاکر کرو، تم لوگ مجھے مشکل میں ڈال دو گے‘‘۔ اس کے جواب میں سعودی ٹیم میں سے ایک نے قونصل جنرل کو کہا، خاموش ہوجائو۔
ترک جریدے ڈیلی صباح نے دعویٰ کیا ہے کہ ترک پراسکیوٹرز اور فارنسک ماہرین نے قونصل خانے سے اہم کلیوز حاصل کرلئے ہیں جن کی رو سے کہا گیا ہے کہ جس کمرے میں جمال خشوگی کو ہلاک کیا گیا، اس کی نشان دہی کرلی گئی ہے۔ جبکہ مرکزی قاتل کے طور پر سعودی انٹیلی جنس کے ایک افسر ڈاکٹر صلاح ایم التوبیغی کا نام ظاہر کیا گیا ہے۔ ترک جریدے ینی شفق کا دعویٰ ہے کہ سعودی قونصل جنرل کے سامنے خشوگی کو روح فرسا تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ترک حکام کا دعویٰ ہے کہ خفیہ ریکارڈنگ سے نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سعودی ٹیم جمال خشوگی کی لاش کے ٹکڑوں کو ایک سوٹ کیس میں پیک کردیا تھا، جس کو مبینہ طور پر 6 سفارتی گاڑیوں کے جلوس میں، شامل ایک گاڑی میں رکھ کر قونصل خانہ سے باہر بھیجا گیا تھا۔ ترک انوسٹی گیشن حکام نے دو مختلف مقامات پر جنگلات کی تلاشی لی ہے اور یہاں پولیس کا پہرہ بٹھادیا ہے کیونکہ سیٹلائٹس سسٹم اور سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے علم ہوا ہے کہ سعودی قونصل خانہ کی دونوں سیاہ رنگ کی وینز ان علاقوں تک 2 اکتوبر کی شام کو آئی تھیں جس دن جمال خشوگی کو قتل کیا گیا تھا۔ برطانوی جریدے گارجین نے بتایا ہے کہ 2 اکتوبر کو جمال خشوگی کی گمشدگی کے بعد قونصل خانہ کے اندر سے سیاہ رنگ کی چھے گاڑیاں ایک کے بعد ایک کرکے نکلی تھیں اور استنبول شہر کے مضافات سمیت مختلف پوائنٹس پر گئی تھیں جن کے بارے میں ترک حکام کا شک ہے کہ ان گاڑیوں میں سے کسی ایک یا دو کی مدد سے جمال خشوگی کی لاش کے ٹکڑوں کو ٹھکانے لگایا گیا ہوگا۔ ان گاڑیوں کی ویڈیو ریکارڈنگز موجود ہیں اور ان کی تمام نقل و حرکت کا ترک موٹر وے اور سیکورٹی اور ٹریفک پولیس کے کیمروں سے بنائی جانے والی ویڈیوز کا باریک بینی سے تجزیہ کیا گیا ہے۔ سعودی اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ شاہ سلمان کی جانب سے اٹھائے جانیوالے اقدامات اورپراسکیوٹرز آفس کے اعلان کے تحت سعودی انٹیلی جنس کے 18اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ٭
جمال خاشقجی کے ’قتل‘ کا علاقائی سیاست پر اثر
سعودی عرب کے فرما روا شاہ سلمان نے جون سنہ دو ہزار سترہ میں محمد بن نائف کی جگہ اپنے سب سے بڑے بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عہد نامزد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد سے سعودی عرب کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں میں جارحانہ عنصر حاوی نظر آنے لگا۔ امورِ سلطنت ولی عہد محمد بن سلمان کے ہاتھ میں جانے کے بعد سے سعودی عرب کی طرف سے امریکہ میں لابنگ پر خرچ کی جانے والی رقم کو دگنا کر دیا گیا۔
اس دوران سعودی عرب کی طرف سے کئی ایک انتہائی جارحانہ اقدامات بھی سامنے آئے جن میں لبنان کے وزیر اعظم سعد الحریری کو یرغمال بنانے کے علاوہ یمن میں سکول بس پر امریکی بم کے استعمال سے بیس سے زیادہ بچوں کی ہلاکت کے علاوہ سعودی عرب میں خواتین کو گاڑی ڈرائیو کرنے کے لیے مہم چلانے والی خاتون اور اس کے شوہر کی گرفتاری کے واقعات شامل تھے۔ سعودی عرب کو بین الاقوامی سطح پر ان تمام اقدامات کے باوجود کسی پریشانی کا کوئی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ لیکن دو اکتوبر کو جمال خاشقجی کے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں غائب ہوجانے کے بعد سے ایک ایسا بحران کھڑا ہو گیا ہے جس کی وجہ سعودی عرب سے زیادہ ٹرمپ انتظامیہ میں تشویش پائی جاتی ہے۔ رپبلکن پارٹی کے سینیٹر لنڈسے گراہم نے گذشتہ روز ایک ٹی وی انٹرویو میں تو جاشقجی کی گمشدگی کا براہ راست ذمہ دار سعودی ولی عہد کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب میں ان کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔
امریکی اخبارات واشگنٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے حوالے سے پہلے ہی اس گمشدگی کو قتل قرار دے چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے اس معاملے پر ابتدائی طور پر شدید رد عمل کے بعد نرمی کا رویہ اپنانے پر نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں امریکہ میں نصف مدتی انتخابات اور ایران کے تیل کے فروخت پر پابندیوں کے معاملات انتہائی اہم ہیں۔ایک ایسے موقعے پر جب سعودی عرب اپنے ہی ملک کے ایک صحافی کے مبینہ قتل کے الزامات میں الجھا ہوا ہو تو امریکہ کا یہ بیانیہ بڑی حد تک کمزور پڑ جائے گا کہ اس خطے میں تمام برائیوں کی جڑ ایران ہے اور اس کا ناطقہ بند کیا جانا چاہیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وہاں کیا ہوا ، اس کا صحیح علم صدر اردوان کو ہے۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے، امریکہ کے سابق وزیر دفاع لیون پنیٹا کہتے ہیں کہ ایک جانب، وہ سعودی عرب سے کوئی معاہدہ کرنے کی کوشش کریں گے، اور وہاں کیا ہوا، اس بارے میں کوئی بہانہ تراشیں گے۔ اور ترک، سعودی عرب سے مالی امداد کے عِوض، کسی حد تک اس کی حمایت کریں گے۔ یہ ایک پر کشش آپشن ہو سکتا ہے۔