(ویب ڈیسک): نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں 2 مساجد پر فائرنگ کے نتیجے میں 49 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوگئے، نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے آنے والی بنگلادیشی کرکٹ ٹیم بال بال بچ گئی۔ وزیراعظم جیسنڈا آڈرن نے ملک کا سیاہ ترین دن قرار دے دیا۔ مسلح شخص نماز جمعہ کے بعد مسجد میں داخل ہوا اور خود کار ہتھیار سے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ حملہ آور نے کئی بار گن ری لوڈ کی اور مختلف کمروں میں جا کر فائرنگ کرتا رہا۔ مقامی میڈیا کے مطابق حملہ آور اس دوران ہیلمٹ پر لگے کیمرے سے ویڈیو بناتا رہا اور انٹرنیٹ پر براہ راست دکھاتا رہا۔
جہاں دنیا بھر میں اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی جارہی ہے وہیں سوشل میڈیا پر اسی حملے کو لے کر ایک بحث کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ مختلف صارفین کا ماننا ہے کہ انٹرنیشنل میڈیا مسلم آبادی پر ہونے والے بھیانک حملے کو دہشتگردی کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس کررہا ہے۔ تشدد کے اس بہیمانہ حملے کو ماس شوٹنگ یا شوٹنگ کہا جارہا ہے اور حملہ آور کو دہشتگرد کہنے کی بجائے شوٹر کہا جارہا ہے۔
بی بی سی کی ویب سائٹ نے اس واقعے کے لیے شوٹنگ کا لفظ استعمال کیا۔
سی این این کی جانب سے بھی ہیڈلائن میں کچھ ایسے ہی لفظ کا استعمال کیا گیا ہے۔
دی گارڈین جریدے کی ہیڈلائن بھی اس سے کچھ مختلف نہیں
اور نیو یارک ٹائمز کی جانب سے بھی اس واقعے کے لیے شوٹنگ کا لفظ ہی موزوں سمجھا گیا
انٹرنیشنل میڈیا کے نامور اور معتبر ناموں کی جانب سے اس طرح کی کوریج پر کئی ٹویٹر صارفین ردعمل کا اظہار کررہے ہیں۔ بھارتی صحافی برکھا دت کا کہنا ہے کہ اگر آپ شوٹر کو دہشتگرد نہیں کہہ سکتے تو آپ بھی سماج دشمن ہیں۔
الجزیرہ انگلش کے میزبان مہدی حسن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کرائسٹ چرچ حملے سے متعلق بیان کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ بات غور کرنے والی ہے کہ امریکی صدر نے شوٹر کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں، اگر شوٹر کوئی مسلم یا لاطینی ہوتا تو ڈونلڈ ٹرمپ اب تک اسے جانور یا شیطان جیسے الفاظ دے چکے ہوتے۔
بھارتی پروفیسر اشوک سوائن نے کہا ہے کہ بیرون ملک اگر کتا بھی مر جائے تو مودی فوراً تعزیت کا ٹویٹ کرتے ہیں مگر 49 لوگوں کو نیوزی لینڈ میں قتل کردیا گیا مودی خاموش ہیں، کہ وہ لوگ مسلمان ہیں۔
ایک صارف نعمان ملک نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور نے کئی مسلمانوں کو مار دیا مگر انٹرنیشنل میڈیا اسے دہشتگرد نہیں بلکہ صرف ایک شوٹر کہہ رہا ہے کیوں کہ وہ مسلمان نہیں ہے۔ .
کینیا سے تعلق رکھنے والے ایک صارف ڈونلڈ کپکورر نے کہا کہ جب دنیا میں کہیں بھی دشتگردی یا ماس شوٹنگ کا واقعہ پیش آتا ہے جس میں سفید فام ملوث نہیں ہوتے تو امریکی صدر فوراً ردعمل دیتے ہیں مگر جب ایک سفید فام نیوزی لینڈ کی تاریخ کے سب سے زیادہ خونی حملے میں ملوث پایا جاتا ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ صاحب خاموش ہوجاتے ہیں، آزاد دنیا کے لیڈر کی جانب سے ایسا رویہ قابل افسوس ہے
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے بھی سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مغربی جمہوریتوں میں سزا سے بریتی کا رویہ ، اسرائیلی ٹھگوں کی جانب سے فلسطین کی مسجد میں گھس کر مسلمانوں کی بے عزتی ،نیوزی لینڈ میں دہشتگردی کی طرح کے متعصب رویےکی وجہ بنتا ہے، آزادی رائے کے نام پر مسلمانوں کی بے عزتی کی مغربی منافقت سے بھرپور روش ختم ہونی چاہیے
بھارتی صحافی راجدیپ سرڈیسائی کے ٹویٹر پیغام میں حملہ آور کو سفید فاموں کی بالادستی کا قائل شخص قرار دینے پر ایک صارف عبد القادر نے ردعمل دیتے ہوئے جواب دیا کہ آپ اس حملہ آور کو یہ لقب دینے کی بجائے عیسائی دہشتگرد کیوں نہیں کہہ رہے جیسا کہ میڈیا ایسے دیگر واقعات میں مسلمانوں کو دہشتگرد قرار دے دیتا ہے؟
نیو یارک ڈیلی کے مصنف جوش گرین مین نے ڈیلی وائر کے مصنف بین شاپرو کے ٹویٹس کو آڑے ہاتھوں لیا انہوں نے ڈیلی وائر کے مصنف کے دو ٹویٹس شئیر کیے اور ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ہم ایک معیار رکھ سکتے ہیں چاہے قاتل مسلم ہو یا عیسائی؟
ملائیشیا کی سیاستدان نورالعزہ نے کہا کہ یہ دشتگردی کا اقدام ہے، ہمیں مذہبی بیک گراؤنڈ یا مجرم کی شناخت کی بجائے ایسے اقدام کے لیے مناسب اصطلاح استعمال کرنی چاہیے۔
سابق انگلش کرکٹر کیون پیٹرسن بھی اس بحث میں کود پڑے اور منفرد نوعیت کا پیغام دیتے ہوئے کہا کہ میں اس واقعے کے بعد ٹویٹر پر مزید نفرت، تعصب، کچھائی دیکھ رہا ہوں