لاہور: (روزنامہ دنیا) کیا امریکہ ایران کے ساتھ جنگ کی تیاری کر رہا ہے ؟ دو طرح کے بیانیے چل رہے ہیں۔ پہلا بیانیہ یہ ہے کہ ایران سے کسی بھلے کی توقع نہ کریں۔ امریکی جنگی تیاریاں ایران کی جانب سے خطے میں امریکی مفادات کو نشانہ بنانے کی اطلاعات کے ردعمل میں ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ خطے میں امریکی مفادات کو ایرانی خطرے کا تو ذکر کرتی ہے لیکن ابھی تک کسی مخصوص خطرے کی کوئی تفصیل فراہم نہیں کی ہے۔ یہ بیانیہ ٹرمپ انتظامیہ کا پسندیدہ ہے۔ امریکہ نے خطے میں اپنی فوجی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے طیارہ بردار بحری بیڑہ خلیج فارس روانہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ اس نے عراق میں ‘غیر ضروری’ سفارتی عملے کو عراق سے نکال لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق امریکہ میں ایران کے ساتھ جنگ کے تیار شدہ پرانے منصوبے کی جھاڑ پونچھ کی جا رہی ہے۔ ایران کے لیے پیغام واضح ہے : ‘اگر تم نے خود یا اپنے کسی حواری کے ذریعے امریکہ یا خطے میں اس کے اتحادیوں کو نشانہ بنایا تو اس کا ردعمل فوجی ہو گا’۔
دوسرا بیانیہ یہ ہے کہ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا ذمہ دار صرف اور صرف امریکہ ہے۔ نہ صرف ایران اس بیانیہ کو صحیح مانتا ہے بلکہ امریکہ میں صدر ٹرمپ کے مخالفین بھی اسے تسلیم کرتے ہیں۔ امریکہ کے یورپی اتحادی بھی اس بیانیہ کے کچھ حصوں کو صحیح مانتے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے ایران مخالف اہلکار اسے ایک موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ایران مخالف امریکی اہلکاروں میں قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو سب سے نمایاں ہیں۔ ایران مخالف امریکی اہلکار ایران میں اقتدار کی تبدیلی چاہتے ہیں، اگر ایران پر امریکی معاشی دباؤ کے باوجود ایران میں مذہبی طبقے کے اقتدار کا خاتمہ نہیں ہوتا تو یہ امریکی اہلکار فوجی حملے کے امکان کو رد نہیں کرتے۔ ان دونوں بیانیوں میں کچھ حقائق کی اپنے اپنے انداز میں تشریحات کی جاتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے امریکہ اور ایران کے مابین تصادم کا امکان جتنا زیادہ آج ہے اتنا پہلے نہیں تھا، امریکی معاشی پابندیاں ایران کی معیشت کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔ ایران نے جوہری معاہدے کے دوسرے فریقین کو خبردار کیا ہے کہ اگر معاشی پابندیاں جاری رہیں تو وہ بھی یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کے فریقین میں امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس، اور جرمنی ہیں۔
امریکہ ایک سال پہلے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے نکل چکا ہے۔ ایران معاہدے کے دوسرے فریقین کو کہہ رہا ہے کہ وہ اس کی بیمار معیشت کی مدد کریں، دوسرے فریقین ایران کی کیسے مدد کرسکتے ہیں ؟ اگر انھوں نے کچھ کیا تو یہ صدر ٹرمپ کو مزید متحرک کرے گا۔ آگے چل کر صورتحال کیا رخ اختیار کرتی ہے اس کا انحصار ٹرمپ انتظامیہ کے اندر کے حالات پر ہے۔ اس کا انحصار اس پر بھی ہے کہ ایران اس صورتحال کا کیا تجزیہ کرتا ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ صدر ٹرمپ ایران کے ساتھ جنگ کے شوقین نہیں ہیں۔ لیکن اگر خطے میں امریکی افواج یا تنصیبات پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو پھر صدر جنگ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ لیکن ضروری نہیں ہے کہ تہران بھی ساری صورتحال اسی زاویے سے دیکھ رہا ہو۔
ایران شاید یہ سوچے کہ وہ خطے میں کشیدگی کو بڑھا کر امریکی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے ایران مخالف منصوبے کو بے نقاب کر سکتا ہے ، جس سے صدر ٹرمپ سکیورٹی کے مشیر سے ناراض ہو جائیں گے۔ ایران پر زمینی یلغار بظاہر ہوتی نظر نہیں آتی۔ ایران کے خلاف کارروائی فضا اور سمندر سے ہو گی جس پر ایران کا جواب یک سمتی نہیں ہو گا، پورا خطہ آگ کے شعلوں میں آ سکتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں روس ایک بار پھر حوصلہ پکڑ رہا ہے اور امریکہ چین کے ساتھ عالمی طاقت ہونے کا مقابلہ شروع کر چکا ہے۔ ایسے میں کیا امریکہ کو اپنی توانائیاں چین کے بجائے ایران پر صرف کرنی چاہئیں ؟ کیا ایرانی خطرہ ایک بڑی جنگ کا متقاضی ہو سکتا ہے ۔ کئی امریکی ماہرین کا جواب منفی میں ہے۔ اگر خلیج فارس میں کوئی مسلح تصادم شروع ہو جاتا ہے تو یہ امریکہ کے سوچے سمجھے اندازوں یا ایران کے غلط اندازوں کی وجہ سے ہو گا۔