پرل ہاربر پر حملہ کیوں ہوا؟

Last Updated On 12 July,2019 05:41 pm

لاہور: (روزنامہ دنیا) اس حیرت انگیز حملے کا پسِ منظر یہ ہے کہ جاپان اور امریکا کے درمیان تعلقات رفتہ رفتہ بگڑتے جا رہے تھے۔ جاپان پہلا ملک تھا جس نے علاقائی توسیع کے پروگرام پر عمل شروع کیا۔ 1931ء میں منچوریا پر جاپانی حملے سے جابرانہ اقدامات کا وہ سلسلہ حرکت میں آیا، جو دوسری عالمی جنگ کا موجب بنا۔

ستمبر 1941ء کے پہلے دو ہفتوں میں جاپان کے بڑے بڑے بحری افسر ٹوکیو کے بحری کالج میں جمع ہوئے تاکہ جزائر ہوائی پر حملے کی تدابیر کے متعلق گفتگو کر لیں۔ پانچ اکتوبر کو جاپان کا منصوبہ منتخب طیاروں کے پائلٹوں کو بتا دیا گیا۔ پانچ نومبر کو ایک حکم جاری ہوا۔ اس میں حد درجہ خفیہ کارروائی کے لیے تیار رہنے کا ذکر تھا۔

دو روز بعد دوسرا حکم پہنچا کہ پرل ہاربر پر حملہ منظور ہے۔ بہتر جنگی جہازوں کا ایک بیڑا نائب امیر البحر چوئیچی ناگومو کے زیر سرکردگی بھیجا گیا۔ اس بیڑے میں دو بڑے جنگی جہاز، دو بھاری کروزر، ایک ہلکا کروزر، چھ طیارہ بردار جہاز، 25 آبدوزیں، 16 تباہ کن جہاز اور بہت سے چھوٹے سفینے شامل تھے۔

یہ طاقت ور بیڑا خلیج تنکان (جزائر کوریل) سے 25 نومبر 1941ء کو روانہ ہوا اور اسے حکم دے دیا گیا کہ جو بھی جہاز راستے میں ملے، اسے ڈبو دیا جائے۔

تین دسمبر کو اس بیڑے نے سمندر ہی میں کوئلہ اور پٹرول لیا۔ یہ خفیہ پیغام نشر کیا گیا ’’مشرقی ہوائیں، بارش ہو رہی ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ تھا کہ امریکا میں جاپانی سفارت خانے یا قونصل خانوں کے جتنے آدمی اور کارندے موجود ہیں، وہ اپنے تمام کاغذات تباہ کر ڈالیں۔

بیڑے کے مختلف اجزا کو پرل ہاربر کے شمال مغرب میں ملنا تھا۔ چنانچہ چار دسمبر کو یہ کام پورا ہو گیا۔ پانچ دسمبر کو ریڈیو کے ذریعے سے پیغام آیا ’’نائی ٹاکا پہاڑی پر چڑھ جاؤ۔‘‘ یہ پیغام حملہ آور جاپانی بیڑے کے لیے تھا۔

اس کا مطلب یہ تھا کہ پرل ہاربر پر حملے کا حکم آخری و قطعی اور غیر متبدل ہے۔ چنانچہ یہ بیڑا پوری تیزی سے پرل ہاربر کی طرف بڑھا۔ دیکھ بھال کے لیے طیارے اِدھر اُدھر پرواز کرنے لگے۔

آبدوزوں کو حکم مل گیا کہ جہاں کوئی امریکی جہاز بیڑے سے باہر نکلتا ہوا پائیں، اسے روک لیں۔ اسی اثنا میں 13 امریکی طیارے (بی 17) ہیملٹن فیلڈ، کیلیفورنیا سے چھ دسمبر کو اڑے تھے اور ہوائی کے شمال مشرق میں تقریباً دو سو میل کے فاصلے پر تھے۔

عین اسی وقت جاپانی طیارہ برداروں سے دو سو ساٹھ طیاروں کا پہلا جھنڈ اڑا۔ سات بجے سے کچھ ہی پہلے دو امریکی اپنے ریڈار کو اوا آہو کی شمالی ڈھلان کی طرف حرکت دے چکے تھے۔

پردے پر طیاروں کا ایک بہت بڑا جھنڈ معلوم ہوا، جو تقریباً 137 میل کے فاصلے پر تھا۔ نصف گھنٹہ بعد ان بادلوں میں سے ایک سو نواسی جاپانی بمبار گرجتے ہوئے نمودار ہوئے۔

اس حیرت انگیز حملے کا پسِ منظر یہ ہے کہ جاپان اور امریکا کے درمیان تعلقات رفتہ رفتہ بگڑتے جا رہے تھے۔ جاپان پہلا ملک تھا جس نے علاقائی توسیع کے پروگرام پر عمل شروع کیا۔ 1931ء میں منچوریا پر جاپانی حملے سے جابرانہ اقدامات کا وہ سلسلہ حرکت میں آیا، جو دوسری عالمی جنگ کا موجب بنا۔

پچیس نومبر 1936ء کو جاپان نے جرمنی اور اٹلی کے ساتھ کمیونسٹوں کی مخالفت کے معاہدے پر دستخط کیے۔ آئندہ موسم گرما میں چین کے اندر وسیع فوجی کارروائیاں شروع کر دیں۔

اگرچہ متعدد بڑے بڑے چینی شہر قبضے میں لے لیے لیکن جاپان چینی دلدل میں پھنس چکا تھا اور پورا ملک مسخر کر لینے میں ناکام رہا۔ اس بے اعلان جنگ سے عزت مندانہ طریق پر باہر نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کرنا ضروری تھا۔

1939ء میں یورپ کے اندر جنگ چھڑ گئی تو جاپان کو زریں موقع ہاتھ آ گیا کہ نہ صرف چین ہی کے معاملے کو کسی اجنبی طاقت کی مداخلت کے بغیر ختم کر دے بلکہ اس نے جنوب کی جانب توسیع کا سلسلہ بھی شروع کرنے کی ٹھان لی۔

جاپان کے سامنے دو بڑے انعام تھے، ایک فرانسیسی ہند چینی، جو چاول، کوئلے اور ٹن کا مرکز تھا۔ دوم ولندیزی شرق الہند، جہاں سے تیل، ٹن اور ربڑ ہاتھ آ سکتے تھے۔ برطانیہ مشرق بعید کا روایتی نگہبان تھا لیکن اسے نازی فیوہرر (ہٹلر) سے خوف ناک مقابلہ پیش آ گیا تھا۔

ولندیزی اور فرانسیسی جلد نازیوں کے زیر اقتدار چلے گئے۔ وہ ایشیا میں اپنے علاقوں کی حفاظت کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ امریکا زیادہ تر یورپی معاملات میں الجھا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ جاپانی حکومت میں موجود عسکریت پسندوں کے لیے یہ نہایت مبارک موقع تھا جس سے کام لے کر وہ مشرقی ایشیا میں مزید علاقوں کو ہتھیا سکتے تھے۔

یقیناً جاپان کے اندر وسیع اقتصادی بدحالی پھیلی ہوئی تھی لیکن عسکریت پسند کہتے تھے کہ توسیع کے پروگرام پر عمل جاری رہے۔ امریکا اس توسیع کے پروگرام کو اچھا نہیں سمجھتا تھا۔ اس نے چین میں کھلے دروازے (اوپن ڈور) کی پالیسی اپنائے رکھنے کا وعدہ کر لیا تھا اور 1922ء میں نو طاقتوں کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا اس میں بھی طے ہو چکا تھا کہ چین میں آزادی نیز انتظامی اور علاقائی سالمیت کو قائم رکھا جائے گا۔

مزید برآں امریکا کو جاپان کی بحری اور فضائی قوت کی نشوونما ناپسند تھی ۔ چین کے خلاف جو وحشیانہ جنگ شروع کی گئی تھی، اس سے نفرت تھی۔ رفتہ رفتہ امریکا اور جاپان کے درمیان اقتصادی جنگ کی سرگرمی بڑھ گئی اور آپس میں رنج و غصہ پیدا ہو گیا۔ 1938ء میں حکومت نے صنعت کاروں کو امریکی ہوائی جہاز جاپان کے ہاتھ فروخت کرنے کی ممانعت کر دی۔

جولائی 1939ء میں واشنگٹن نے 1911ء کا امریکی و جاپانی معاہدہ منسوخ کر دیا جس سے جاپانی تجارت متاثر ہوئی۔ 26 جولائی 1940ء میں روز ویلٹ نے امریکا میں جاپان کا پورا راس المال کاروبار سے خارج کر دیا۔ برطانوی دولت مشترکہ کی قوموں نے بھی اسی کی پیروی کی۔ پھر صدر روزویلٹ نے برآمد پر نظم و ضبط کا قانون منظور کرایا اور جاپان کو مشینوں کے اوزار، کیمیائی چیزوں اور جنگی سامان دینے کی ممانعت کر دی۔

پھر اے بی سی ڈی (امریکا، برطانیہ، چین اور ولندیزی شرق الہند) طاقتوں نے ناکہ بندی کر دی اور جاپان جو جنسیں درآمد کرتا تھا، ان میں 75 فیصد کمی ہو گئی۔ جاپانی عسکریت پسندوں نے غیظ و غضب سے چیخنا چلانا شروع کر دیا۔ بڑی سرگرمی سے جنگی تیاریوں کا آغاز ہو گیا۔

تمام سیاسی جماعتوں کو ملا کر ایک جماعت بنا دیا گیا۔ وزیراعظم کونوی امریکا سے کوئی نہ کوئی تصفیہ کر لینا چاہتا تھا۔ وزیر جنگ جنرل ٹوجو نے اسے انتباہ کر دیا کہ ایسی گفت و شنید جاری رکھنا، جس سے کوئی نتیجہ نہ نکلے، برا ہو گا۔

اس طرح جنگ کا وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔ وسط اکتوبر 1941ء میں پرنس کونوی نے اعتدال کی پالیسی کے لیے کوششیں ترک کر دیں اور وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کی جگہ جنرل ٹوجو نے اپنی نئی کابینہ میں بحری اور فوجی افسر شامل کر لیے۔ امریکا کے خلاف زبردست مہم شروع کر دی گئی اور آخر کار پرل ہاربر پر حملہ ہو گیا۔