سرینگر: (دنیا نیوز) مقبوضہ کشمیر میں 16 ویں روز بھی لاک ڈاؤن جاری ہے۔ سڑکیں سنسان ہیں۔ تعلیمی مراکز ویران ہیں۔ شہری پریشان ہیں۔ دو ہفتوں کے دوران حریت رہنماؤں، سیاستدانوں سمیت ہزاروں افراد گرفتار کو گرفتار کیا گیا ہے۔ کرفیو میں نرمی کے باوجود دکاندار دکانیں نہیں کھول رہے ہیں۔ عوام میں خدشات اور خوف میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد وادی کا 16 ویں روز بھی لاک ڈاؤن جاری ہے۔ ہر طرف فوج نظر آ رہی ہے، سڑکیں سنسان ہیں۔ تعلیمی مراکز ویران ہیں۔ شہری پریشان ہیں۔ قابض فوج رات کے اندھیروں میں گھروں پر ریڈ کر کے خواتین کو ہراساں جبکہ نوجوانوں کو گرفتار کرنے لگی ہے۔
جنت نظیر وادی یں مواصلاتی رابطے بند تاحال بند ہیں، ہر گلی، نکڑ، محلے اور بڑی سڑکوں پر فوج کھڑی ہے جس کے بعد پوری ریاست چھاؤنی کا منظر پیش کر رہی ہے، فوج اور پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد پٹرولنگ کر رہی ہے۔ بانڈی پورہ اور بارہمولا کہ چند علاقوں میں جن میں سوپور بھی شامل ہے سخت پابندیاں ہیں۔ شوپیاں، کولگام اور اننت ناگ میں کرفیو ختم ہوتے ہی شہریوں کی بڑی تعداد مظاہرے شروع کر دیتی ہے۔
موبائل، لینڈ لائن، انٹر نیٹ تاحال بند ہیں، شہری کے اپنے پیاروں سے رابطے نہ ہونے پر پریشان ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے وادی کا دنیا کیساتھ رابطے منقطع ہو کر رہ گیا ہے۔ مارکیٹیں، ٹرانسپورٹ ، ٹرینیں سمیت دیگر بسیں بھی بند ہیں۔
16 ویں روز بھی حریت رہنما علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، یٰسین ملک سمیت دیگر بڑی تعداد جیلوں میں بند ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں دیگر سیاسی رہنما بھی جیل میں بند ہیں، ہند نواز محبوبہ مفتی، عمر عبد اللہ، فاروق عبد اللہ کو بھی جیل میں بند کیا گیا ہے۔
فوج کے زیر انتظام چلنے والے نام نہاد 200 سکول کھلے ہوئے ہیں جنہیں اساتذہ تو موجود ہیں تاہم کلاسیں ویران ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج رہے۔
قطری خبر رساں ادارے الجزیرہ کے نمائندے کچھ شہریوں کے پاس بیٹھے جہاں وہاں لوگوں کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت ڈرامے رچا رہی ہے کہ دنیا کو بتانے کے لیے ہمارے سکول کھلے ہیں، نوجوان نے تعلیم کا بائیکاٹ کر کے مودی سرکار کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔ 99 فیصد سڑکیں بند ہیں، حالات نارمل ہوتے ہیں تو لوگ احتجاج شروع کر دیتے ہیں۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ ایک بار پھر کرفیو ختم ہوا تو لوگوں کی بڑی تعداد باہر نکلے اور مظاہرے کرے گی، مودی سرکار نے ہفتے میں ایک بار کرفیو نرم کر کے دنیا کو ڈھونگ رچانے کی کوشش کی تاہم بڑی تعداد میں مظاہرے کے بعد بوکھلاہٹ میں آ کر قابض انتظامیہ نے دوبارہ سخت کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ ہم ہار ماننے والے ہیں۔ احتجاج جاری رکھیں گے۔ ہماری شناخت پر حملہ کیا گیا ہے۔
شہریوں کے احتجاج پر بھارتی قابض فوج پیلٹ گنز اور آنسو گیس استعمال کر رہی ہے، 8 شہری زخمی ہو گئے ہیں جنہیں طبی امداد کے لیے سرینگر کے مقامی ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے۔ مقامی صحافیوں شکوہ کر رہے ہیں کہ ہمارے کام میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔ پاسز دیئے جا رہے ہیں جس کے بغیر کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
معروف بھارتی دانشور نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر امرتیا سین نے کشمیر کی صورتحال پر تنقید کرتے ہوئے کہا کشمیر صرف کشمیریوں کا ہے، ان کا حق جائز اور قانونی ہے۔
85 سالہ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر امرتیا سین نے بھارتی ٹی وی کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا حل جمہوریت کے بغیر ممکن نہیں، مودی سرکار اپنی اکثریت کے بل بوتے پر انسانی حقوق پامال کر رہی ہے۔ اس اقدام سے میں شرمندگی محسوس کر رہا ہوں اور یہ بھی کہہ نہیں سکتا کہ مجھے بھارتی ہونے پر فخر ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آج مجھے اپنے بھارتی ہونے پر فخر نہیں رہا، مودی سرکار کشمیر میں برطانوی سامراجی ہتھکنڈے اپنا رہی ہے، جو آج کشمیر میں ہو رہا ہے، انگریز بھی 200 برس تک کرتے رہے۔
دوسری طرف بھارتی فوج نے حقیقت دنیا کو بتانے پر سٹوڈنٹ لیڈر شہلا رشید کو طلب کر لیا ہے، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طالبہ کو ان کے ٹویٹ کے بعد تحقیقات کے لیے طلب کیا گیا ہے، شہلا دنیا کو بھارتی مظالم کے بارے میں آگاہ کر رہی تھی۔
یاد رہے کہ شہلا رشید نے ٹویٹر پر متعدد ٹویٹ کئے تھے، جن میں بھارتی فوجی رات کو گھروں میں گھستے ہیں، لڑکوں کو زبردستی اٹھا لیتے ہیں، گھر کا سامان تہس نہس کرتے ہیں، راشن اُٹھا کر پھینک دیتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ شوپیاں میں 4 آدمیوں کو پوچھ گچھ (تشدد) کے لیے فوجی کیمپ لے جایا گیا جہاں مائیک کو قریب رکھا گیا تاکہ علاقے کے لوگ انکی چیخیں سن سکیں۔ اس نے پورے علاقے میں خوف کی فضا قائم کر دی۔
ایک اور ٹویٹ میں شہلا رشید کا کہنا تھا کہ آخر میں کشمیر میں جو چیز دم توڑ گئی وہ بھارت کی جمہوریت ہے۔ ہر چیز کو پاکستان کی طرف نہ لے جائیں۔ ہم کشمیری صرف اس لیے خاموش نہیں رہ سکتے کہ بھارتی حکومت کے اقدامات اسے عمران خان کے مقابلے میں منفی انداز میں پیش کرتے ہیں۔
اُدھر بی جے پی سرکار کے حامی شہیلا رشید پر برہم ہو گئے ہیں۔ کچھ لوگوں نے انہیں ایجنٹ قرار دیا ہے جبکہ بھارتی میڈیا میں ان کے خلاف باقاعدہ مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے ایک وکیل نے بھی ان کیخلاف عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔
دریں اثناء طالبہ کی حمایت میں کچھ بھارتی شہری سامنے آئے ہیں، بھارتی سول سوسائٹی سے وابستہ لوگ انکی حمایت میں نکل آئے ہیں۔ بھارتی صارف پرشانتو نے ٹویٹ میں لکھا کہ بی جے پی کو کیوں شہلا رشید سے ڈر لگتا ہے ؟ وہ کشمیری ہے، مسلمان ہے، عورت ہے اور پی ایچ ڈی کر رہی ہے۔ یہ بہت خطرناک امتزاج ہے۔
کویتا کرشن نامی صحافی نے ٹویٹ میں لکھا کہ گورنر کی گرفتاری کا کوئی مطالبہ نہیں جو کشمیریوں کے قتل عام کی بات کر رہا ہے لیکن عورت کی گرفتاری کا مطالبہ کیا جارہا ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کر رہی ہے۔