بھارت میں ’’ پاکستان‘‘

Last Updated On 28 October,2019 03:53 pm

لاہور: (دنیا میگزین) ایک بھارتی جریدے سے پتہ چلا کہ بھارتی ریاستوں، شہروں اور دیہات میں مسلمانوں نے ناصرف ادارے قائم کئے تھے بلکہ ہندوئوں اور دوسرے مذاہب کے والوں کو عزت سے نوازا تھا۔

ایسی ہی محبت کی ایک علامت بھارتی ریاست بہار میں قائم ہوئی جہاں1947ء میں ایک بڑے گائوں کا نام ’’پاکستان‘‘ رکھ کر مسلمانوں اور پاکستان سے محبت کا ثبوت دیا۔ یہ اس محبت کا جواب تھا کو مسلمانوںنے ان سے کی تھی۔

ہندوستان کے ضلع پورنیا میں واقع اس گائوں میں کبھی کوئی فساد یا بلوہ نہیں ہوا بلکہ یہ بھارت بھر میں ہندو سے مسلمانوں کے پیار، خلوص اور محبت کی نشانی تھا۔ مسلمان جین مت، بدھ مت اور ہندئوں کو عزت ووقار سے رکھا کرتے تھے۔

قدیم قبائلی طرز زندگی کے حامل اس گائوں کے تمام مسلمان 1947ء کے بعد سابقہ مشرقی پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔ یہ ہزاروں میں تھے۔ جاتے جاتے انہوں نے اپنی تمام جائیدادیں مقامی ہندوئوں اور بدھ متیوں کے نام کر دی تھیں۔

مقامی باشندے اس قربانی کو کبھی نہیں بھولے۔ ان کے دل میں بسنے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ مقامی باشندے پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ مسلمانوں کا سلوک دیکھ کر وہ پاکستان کی محبت میں سرشار تھے مگر جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر مائونٹ بیٹن نے ان لوگوں کو ’’بیٹ‘‘(Beat ) کرتے ہوئے یہ گائوں بھی بھارت کو دے دیا۔

جب مائونٹ بیٹن نے اسے بھارت کے حوالے کیا تو مقامی لوگوں نے اس کا نام ’’پاکستان ‘‘رکھ کر دل کی مراد پوری کی۔ اس طرح انہوں نے سمجھ لیا کہ وہ پاکستان میں شامل ہو گئے ہیں۔ وہ بھارت میں رہ کر پاکستان کا حصہ سمجھے جاتے تھے اور انہیں ’’پاکستانی‘‘ کہہ کر ہی مخاطب کیا جاتا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’ہمیں چھوڑ کر جانے والے بہت ہی پیارے لوگ تھے، ہم ان کی محبت آج بھی نہیں بھولے، ہمارے بڑے اپنے اورمسلمانوں کی محبت کی باتیں بتایا کرتے تھے ،ہمارے بڑوں نے اس سے محبت کا قرض چکاتے ہوئے ان کی یاد میں گائوں کا نام بدل کر’’ پاکستان‘‘ رکھا تھا۔

یہ گائوں گزشتہ کئی عشروں سے مسلمانوں، دو قوموں، دو ممالک کے مابین محبت کی علامت تھا۔ جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل کی تمام مسلمان دشمنی کے باوجود یہ واحد گائوں تھا جہاں سب محبت کی لڑی میں پروئے گئے تھے۔

اس گائوں کی خوبی یہ بھی ہے کہ ہمارے اہم رہنمائوں نے بھی وہاں مسلم لیگ کے لئے رکنیت سازی کی تھی لیکن ہندوآتہ آگ نفرت انگیز آگ نے اس پیار اور محبت کو بھی سرکاری فائلوں کو جلا کر راکھ کر دیا ہے۔

اہل دیہہ کہتے ہیں کہ انہیں پاکستان سے محبت کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے، تمام انسانی سہولتوں سے محروم رکھ کر انہیں پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا گیا ہے۔ بھارت کے دوسرے مسلمان اکثریتی علاقوں اور سابق ریاستوں کی طرح یہ گائوں بھی زندگی کی ہر نعمت کو ترس رہا ہے۔

قیام پاکستان سے قبل یہ گائوں نیپال کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت بھی یہ گائوں اس سرحد کے قریب تھا جو پاکستان میں شامل ہوئی۔ تقسیم کے وقت یہ بھی ایجنڈے پر تھا اور اسے بھی پاکستان میں ہی شامل ہونا چاہیے تھا کیونکہ اردگرد کے کئی گائوں پاکستان کا ہی حصہ بن گئے تھے۔

یہ باتیں حقیقت بن چکی ہیں کیونکہ کسی ایک رہنما نے بھی وہاں ترقیاتی کاموں کی اجازت نہ دی، ’’پاکستان‘‘ کی مناسبت سے نام رکھنے کی وجہ سے انہیں ایک عذاب کا سامنا ہے۔ گائوں کے رہنما گورو بیسارا نے ہندو انتہا پسندی کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب بھی ہم بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنمائوں سے ترقیاتی منصوبوں کی بات کرتے ہیں، پینے کے پانی کا مطالبہ کرتے ہیں تو ہم پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے اور ہمیں بھارت پاکستان موجودہ تنازع کے پس منظر میں دیکھا جانے لگتا ہے‘‘۔

ہندو انتہا پسندی کے دور میں بہاریوں کی پریشانیاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ یہ ہندوستان کے ان بے شمار دیہات میں شامل ہے جہاں 21ویں صدی میں پتھر کے زمانے جیسی ’’سہولتیں‘‘ حاصل ہیں۔ پانی ہے نہ گیس، کسی نے صنعت لگانے کی اجازت دی نہ ہی مشینری لائی گئی۔

پورے گائوں میں ایک بھی تعلیمی ادارہ قائم نہیں کیا گیا۔ ہسپتال ہے نہ کلینک،نہ ہی ڈاکٹر آتا ہے۔ کار ہے نہ پٹرول پمپ۔ حتیٰ کہ اسے کئی سڑکوں سے بھی محروم رکھا گیا۔ بقول اہل دیہہ حکمران کہتے ہیں ہے کہ تم تو ’’پاکستان ‘‘ہو۔ اسی سے بجلی، پانی اور گیس مانگو، وہی تمہیں روٹی، کپڑا اور مکان دے گا۔ تماری ترقیاتی سکیموں پر کام کرنا پاکستان کی ذمہ داری ہے‘‘۔

چنانچہ اب وہ گائوں کانام بدل کر’’بارسا نگر‘‘ رکھنا چاہتے ہیں۔ بارسا اسی گائوں کے ایک کمزور سے سرپنچ تھے جنہوں نے دونوں ممالک کے مابین رشتے استوا رکھنے کی اپنے تئیں کوشش کی مگر ہندو آتہ کے سامنے ڈھیر ہو گئے۔

مقامی مجسٹریٹ راہول کمار درخواست پر غور کر رہے ہیں۔ گائوں کے سرپنچ وپن چودھری نے میڈیا کو بتایا کہ مقامی کچہری کے حکام نام کی تبدیلی پر متفق ہو گئے ہیں۔ مجسٹریٹ نے کہا ہے کہ وہ خود مسائل کو دیکھیں گے مگر اس درخواست پر فیصلہ کرنا ان کے بھی بس میں نہیں ہے۔ وہ اوپر سے رائے لیں گے۔

اس وقت درخواست کے مختلف پہلوئوں پر آر ایس ایس غور کر رہی ہے۔ پاکستان اور اسلام سے متعلق تمام امور بھارتی ایوانوں میں جانے سے پہلے آر ایس ایس کے دفتر کا رخ کرتے ہیں، وہاں سے ہاں ملنے کے بعد ہی کام شروع ہوتا ہے ورنہ درخواست وہیں روک لی جاتی ہے۔

آر ایس ایس ہندوآتہ کے پس منظر میں ہر کام کا جائزہ لیتی ہے۔ گائوں کا نام پاکستان سے بدل کر بسارا نگر رکھنے کا فیصلہ بھی آر ایس ایس کی مرضی کے بعد ہی نافذ ہوگا۔ فی الحال تو نام بدلنے کی تجویز پڑھتے ہی بھارتی ایوانوں میں شور مچ گیا ہے۔

ہر کوئی سوال کر رہا ہے کہ یہ کیسے ہو گیا؟ بھارت میں پاکستان کیسے بن گیا؟ کس نے رکھا یہ نام؟ کون تھے ان کے پس منظر میں؟ یہ اور ایسے بہت سے سوالات کا کھوج لگانے کے لئے بھارتی سینا سینہ سپر ہو گئی ہے۔ اہل دیہہ کے بارے میں مکمل معلومات اکھٹی کی جا رہی ہیں تاکہ گائوں کا نام پاکستان رکھنے والوں کے خاندانوں کوسزا دی جا سکے۔

تحریر : محمد ندیم بھٹی