نئی دہلی: (ویب ڈیسک) بھارت میں متنازع شہریت قانون کے خلاف ملک بھر میں پر تشدد احتجاج جاری ہے، اس احتجاج کو کنٹرول کرنے کے لیے بھارتی سکیورٹی فورسز نت نئے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں، کبھی مودی سرکار پولیس کی مدد سے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کرواتی ہے تو کبھی سوشل میڈیا سے عوام کو دور رکھنے کے لیے انٹرنیٹ کی سہولیات چھین لی جاتی ہیں، برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے ایک رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق بھارت میں موبائل فون کمپنیوں کو روزانہ انٹرنیٹ کی بندش سے 82 لاکھ ڈالرز (تقریباً سوا ارب روپے) کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ 2019ء کے دوران 13 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق بھارت میں شہریت کے قانون میں ترمیم کے خلاف پرتشدد احتجاجی مظاہروں سے عالمی سطح پر مسلمانوں کو ’دیوار سے لگانے‘ کی باتیں ہو رہی ہیں وہیں اسکے منفی اثرات ملکی معیشت پر بھی ظاہر ہو رہے ہیں۔ مظاہروں کی وجہ سے موبائل فون کمپنیوں کو روزانہ قریب 82 لاکھ ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے، کیونکہ انہیں حکومت کی ہدایت پر انٹرنیٹ سروسز بند کرنا پڑ رہی ہیں۔
خبر رساں ادارے کے مطابق انڈیا میں شہریت کے قانون میں ترمیم کے خلاف شروع ہونے والے پر تشدد احتجاج کا دائرہ ہر نئے روز کے ساتھ پھیلتا جا رہا ہے۔ آسام، بنگال اور دہلی سے ہوتا ہوا یہ احتجاج انڈیا کے کاروباری مرکز سمجھے جانے والے شہر ممبئی تک پہنچ چکا ہے اور یہ سلسلہ ابھی رکتا نظر نہیں آتا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ایک سال کے دوران (2019ء کے دوران) بھارت میں انٹرنیٹ کی بندش کے باعث ملک کو 13 ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ انٹرنیٹ بندش کرنے کی بڑی وجوہات مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنا، مقبوضہ وادی میں چار ماہ سے زائد وقت ہو گیا ہے انٹر نیٹ کی بندش کو، جبکہ متنازعہ قانون کی منظوری کے بعد ملک بھر میں پھیلے جانے والے مظاہروں کو کنٹرول کرنے کے لیے انٹرنیٹ کی بندش کے باعث اتنا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
دو ہفتوں کے دوران مظاہروں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 29 ہو گئی ہے، درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں اور سینکڑوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ متعدد شہروں میں انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بند کر دی گئی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں سکیورٹی فورسز تعینات کی گئی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہاں تک کہ اقوام متحدہ اور امریکہ بھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت ہندوتوا کو پروان چڑھا رہی ہے اور یہ ترمیم مسلم مخالف ہے۔ حکومت مظاہروں پر قابو پانے اور اس تحریک کو دبانے کے لیے گاہے بگاہے انٹرنیٹ سروسز کو بند کرتی ہے تاکہ لوگ سوشل میڈیا پر متحرک نہ ہو سکیں۔ آزادی اظہار کے لیے سرگرم تنظیمیں انڈین حکومت کے اس اقدام پر تنقید کر رہی ہیں۔
ٹیلی کام انڈسٹری سے وابستہ ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے 18 اضلاع میں انٹرنیٹ سروسز کو بند کر دیا گیا تھا۔ سیلولر آپریٹرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ پہلے انٹرنیٹ کو بند نہیں کرنا چاہیے۔
ایسوسی ایشن کے کے ڈائریکٹر جنرل راجن میتھیوز کا کہنا ہے کہ ہم نے بندش سے ہونے والے نقصان کا اندازہ لگایا ہے اور ہمارے حساب کے مطابق ایک گھنٹے کے لیے انٹرنیٹ سروسز بند کرنے سے ہمیں تین لاکھ 50 ہزار ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے۔
واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد وہاں انٹرنیٹ سروسز کو بھی گذشتہ چار ماہ میں گاہے بگاہے بند کر دیا جاتا ہے جس سے موبائل فون کمپنیوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انٹرنیٹ کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’ایکسیس ناؤ‘ نے کہا ہے کہ کسی جمہوری ملک میں انٹرنیٹ پر لگائی جانے والی یہ سب سے لمبی پابندی ہے۔