واشنگٹن: (دنیا نیوز) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ عراق میں اگر ہماری فوج پر حملہ ہوا تو تہران کو بہت بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو دھمکی دی اورکہا کہ عراق میں موجود امریکی افواج پر حملہ کیا گیا تو اس کا بھرپور جواب دینگے اس کی ایران کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ ۔
Upon information and belief, Iran or its proxies are planning a sneak attack on U.S. troops and/or assets in Iraq. If this happens, Iran will pay a very heavy price, indeed!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) April 1, 2020
ٹرمپ نے ٹویٹ میں مزید لکھا کہ معلومات اور اندازے کے مطابق ایران یا اسکے اتحادی امریکی افواج پر حملے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق ایران نے عراق میں امریکی پیٹریاٹ میزائلوں کی کھیپ عین الاسد کے فوجی اڈے پر تعینات کرنے پر امریکا کو دھمکی دی تھی۔
خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کورونا وائرس کی وباء سے لڑ رہا ہے اور امریکا اس کی آڑ میں عراق پر مہلک ہتھیار نصب کر رہا ہے۔ یہ اقدام عراقی پارلیمنٹ اور قوم کی توہین کے برابر ہے۔ اس اقدام سے خطے میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہو گی۔
وزارت خارجہ حکام کا کہنا تھا کہ امریکا کو عراقی عوام کی خواہشات کا احترام کرنا ہو گا اس لیے جتنا جلدی ہو سکے امریکا عراق سے اپنی فوج کو نکال لے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل عراق میں بین الاقوامی عسکری اتحاد میں شامل امریکی فوج نے پیر کے روز فضائی دفاعی نظام سے متعلق "پیٹریاٹ" میزائلوں کی کھیپ تعینات کر دی تھی۔ یہ پیشرفت امریکی فورسز پر بیلسٹک میزائلوں کے حملے کے دو ماہ بعد سامنے آئی ہے۔
اس سلسلے میں ایک میزائل بیٹری گزشتہ ہفتے "عين الاسد" کے فوجی اڈے پہنچی جہاں امریکی فوجی تعینات ہیں۔ عراقی اور امریکی عہدے داران کا کہنا ہے کہ مذکورہ بیٹری کو نصب کیا جا رہا ہے۔
ایک امریکی عسکری عہدے دار نے انکشاف کیا ہے کہ ایک اور میزائل بیٹری عراقی کردستان کے دارالحکومت اربیل میں "حرير" کے فوجی اڈے پہنچی ہے۔ اس کے علاوہ دو دیگر میزائل بیٹریاں ابھی تک کویت میں موجود ہیں جن کو عراق منتقل کیا جانا ہے۔
ذرائع نے واضح کیا ہے کہ اعلی سطح کے عراقی ذمے داران نے امریکی مرکزی کمان کے کمانڈر جنرل کینیتھ میکنزی سے رواں سال فروری میں ہونے والی ملاقات کے دوران کہا تھا کہ امریکی حکومت عراق میں دفاعی میزائل تعینات کرنے کے ساتھ وہاں اپنے فوجیوں کی تعداد میں کمی لا کر بغداد حکومت کو سپورٹ فراہم کر سکتی ہے۔
واضح رہے کہ امریکا کے زیر قیادت بین الاقوامی عسکری اتحاد نے گذشتہ چند ہفتوں کے دوران کئی عسکری اڈوں سے اپنے فوجی اہل کاروں کو ہٹا لیا۔
یاد رہے کہ عراق میں نگراں حکومت کے سربراہ عادل عبدالمہدی نے پیر کے روز غیر اجازت یافتہ حربی کارروائیوں کے نتائج سے خبردار کیا تھا۔
اُن کے مطابق یہ کارروائیاں عراق کے شہریوں کی سیکورٹی کے لیے خطرہ اور ملکی خود مختاری کی خلاف ورزی ہے۔
عبدالمہدی کا کہنا تھا کہ بعض عناصر کی جانب سے عراقی فوجی اڈوں یا غیر ملکی نمائندگی کو نشانہ بنانے کی غیر ذمے دارانہ اور غیر قانونی کارروائیاں، عراق کی خود مختاری کو نشانہ بنانا اور حکومتی اور عوامی سطح پر عراقی ریاست سے تجاوز کرنا ہے۔
بیان میں ان کارروائیوں کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان کارروائیوں کے مرتکب عناصر کے تعاقب اور ان کو روکنے کے لیے تمام تر ممکنہ اقدامات کیے جا رہے ہیں، اس وقت تمام تر کوششیں داعش کے خلاف نبرد آزما ہونے، امن و استحکام کو یقینی بنانے اور اس وبا کی روک تھام کے لیے صرف ہونی چاہئیں جو پوری انسانیت کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ بدھ کی شام بغداد کے سخت پہرے والے حساس ترین علاقے گرین زون میں دو کیٹوشیا راکٹس گرے تھے۔ تاہم اس کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ گرین زون میں سرکاری عمارتیں اور غیر ملکی مشنز شامل ہوتے ہیں۔ یہ علاقے کو نشانہ بنائے جانے کی تازہ ترین کارروائی تھی۔